"DRA" (space) message & send to 7575

سندھ: امکانات اور خدشات

وفاقی وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ سندھ میں گورنر راج کا کوئی امکان نہیں۔عابد شیر علی واحد یا پہلے وفاقی رْکن نہیں جنہوں نے صوبہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کو خارج ازامکان قرار دیا‘ اْن سے قبل وفاقی وزیر برائے ریلویز خواجہ سعد رفیق اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر پرویز رشید بھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔خود وزیر اعظم محمد نوازشریف کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ اْن پر سندھ میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو ہٹا کر براہ راست مرکز کے تحت لانے یعنی گورنر راج کے نفاذ کیلئے سخت دبائو ہے لیکن وہ اس انتہائی اقدام کے خلاف ہیں اور ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں‘لیکن جیسے کہا جاتا ہے‘ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں‘ سندھ میں گورنر راج کا نفاذ بھی ناممکنات میں شمار نہیں ہوسکتا۔اس قسم کے اقدامات کیلئے ایسے معروضی حالات کی موجودگی لازمی نہیں جنہیں بنیاد بنا کر جواز پیش کیا جاسکے۔اس کے علاوہ اس قسم کا فیصلہ کرتے وقت اْس کے مضمرات اور دور رس نتائج کو بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔جہاں تک آئینی اور قانونی پہلوئوں کا تعلق ہے‘ آئین پاکستان میں کسی بھی صوبائی حکومت کو ہٹا کر وہاں گورنر راج نافذ کرنے کیلئے دفعات موجود ہیں۔آئین کے باب چہارم(ایمرجنسی پاورز)میں آرٹیکل 232اور234کے تحت صدر ایک ہنگامی اعلان (Proclamation) کے ذریعے کسی بھی صوبائی حکومت کو ہٹا کر اس کے تمام انتظامی اور قانونی اختیارات گورنر کو تفویض کرسکتا ہے‘ لیکن اٹھارہوں آئینی ترمیم کے بعد ان دونوں دفعات کے تحت مرکزی حکومت کے اختیارات کو محدود کردیاگیا ہے‘ مثلاً آرٹیکل 232کے تحت اقدام کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی اسمبلی پہلے اس کے حق میں قرارداد منظور کرے۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی صوبے میں گورنر راج اْس صوبے کی منتخب اسمبلی کی دعوت پر ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں یعنی اگرصدرِمملکت خود اپنے طور پر اس کافیصلہ کریں تو گورنر راج کے نفاذ کے دس دن کے اندراس فیصلے کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الگ الگ منظوری لینا پڑے گی۔اسی طرح آرٹیکل 234کے تحت بھی اس اقدام کو ایک مقررہ مدت کے اندر پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہوگا۔
دونوں صورتوں میں سندھ میں گورنر راج کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے کیونکہ صوبائی حکومت کو اسمبلی کے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل ہے۔حال ہی میں صوبائی حکومت نے صوبے کا بجٹ منظور کروایا ہے۔اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ صوبائی اسمبلی خود اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مصداق صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کی دعوت دے۔ اگر مرکزی حکومت صوبائی اسمبلی کو نظر انداز کرکے یک طرفہ طور پر اسے تحلیل کرکے اور صوبائی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کرتی ہے تو اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل کرنی پڑے گی۔قومی اسمبلی میں تو یہ ممکن ہے کیونکہ ایوان زیریں میں حکمران جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)کو اکثریت حاصل ہے‘ لیکن سینیٹ میں پیپلز پارٹی اپنی حلیف سیاسی جماعتوں کے ارکان کی مدد سے اس قسم کی منظوری بلاک کرسکتی ہے۔آرٹیکل 234کے تحت اس اقدام کی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہے۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت اور مرکزی حکومت کے تامل اور آئینی اور قانونی راستے میں حائل رکاوٹوںکے باوجود سندھ میں گورنر راج کی افواہیں بدستور گردش کررہی ہیں بلکہ ان میں تیزی آرہی ہے‘ یہاں تک کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی برخاستگی اور گورنر راج کے نفاذ کو نہ صرف ناگزیر بلکہ چند دن کی بات قرار دیاجارہا ہے۔
اس کی وجہ کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے صوبائی حکومت اور رینجرز کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن اگرچہ سندھ پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن ہے لیکن اس میں رینجرز کو بالادستی حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف20نکاتی ایکشن پلان کے اعلان کے بعد ملک کے تمام صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں جن کے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والی دوسری فورسز کے سربراہان کے علاوہ کورکمانڈر بھی شریک ہوتے ہیں۔اگرچہ ان کمیٹیوں کی سربراہی صوبائی وزرائے اعلیٰ کے پاس ہے؛تاہم سندھ میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں کرنے کے اختیارات آہستہ آہستہ صوبائی حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔اس کا ثبوت ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر اور اْس کے بعد سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کے دفتر پر سندھ رینجرز کے چھاپوں کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔سندھ حکومت کو شکایت ہے کہ رینجرز اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کررہے ہیں کیونکہ ستمبر2014ء میں رینجرز کو آئین کی جس دفعہ کے تحت سندھ میں 
امن و امان کے قیام اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے بلایا گیا تھا،اْس کے تحت رینجرز کا کام صرف دہشت گردوں،بھتہ خوروں،اغوا کنندگان اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔رینجرز کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردوں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف اْس وقت تک موثر کارروائی نہیں ہوسکتی جب تک صوبائی حکومت کے مختلف محکموں میں موجود کرپشن اور اس کرپشن کی پْشت پناہی کرنے والے سیاسی رہنمائوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔اہم بات یہ ہے کہ رینجرز کے موقف کو عسکری قیادت کی حمایت حاصل ہے اور اسے کھلم کھلا ظاہر کیا جارہا ہے۔اس سے سندھ کی صوبائی حکومت کی پوزیشن اور بھی کمزور ہوتی ہے بلکہ بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی حکومت مفلوج ہوکررہ گئی اور رسمی طور پر نہ سہی،عملی طور پر سندھ میں تمام اختیارات رینجرز کے ہاتھ میں جاچکے ہیں۔ان تبصرہ نگاروں کے مطابق یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی‘ حالات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں یعنی گورنر راج ناگزیر ہوچکا ہے۔
ان حالات کے پیشِ نظر اگر مرکزی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو اس انتہائی اقدام سے قبل اس کے تمام پہلوئوں اور مضمرات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔صوبائی حکومت کی بعض شعبوں میں غفلت اور بے عملی عیاں ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ صوبے میںکرپشن کا زور ہے لیکن مرکزی حکومت کو یہ دیکھنا ہے کہ صوبے کے عوام خصوصاََ دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ اس اقدام کو کس نظر سے دیکھیں گے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ قابلِ رشک نہیں رہی‘ مرکز کی ہرحکومت خواہ اْس کا تعلق مسلم لیگ سے ہو،پیپلز پارٹی یا فوج سے‘ ہرصوبے میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔اس کیلئے کبھی آئین کا سہارا لیا گیا جیسے1950ء کی دہائی کے دوران اور کبھی مارشل لاء کی آڑ میں اقدام کیا گیا۔اس کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی نظام میں صوبوں اور مرکز کے درمیان بداعتماد ی ایک ایسا مسئلہ بن کر اْبھرا ہے جس کی شدت ابھی تک کم نہیں ہوئی۔اٹھارہوں آئینی ترمیم کے ذریعے اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس ترمیم کے باوجود اگر مرکز یک طرفہ طور پر سندھ میں گورنر راج نافذ کرتا ہے،تو آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کی یہ ایک سنگین خلاف ورزی ہوگی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں علی الترتیب پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بدستور پاپولر پارٹیاں ہیں۔ اْنہیں حکومت سے فارغ کرکے کون سی سیاسی قوتوں کو انسداد دہشت گردی جیسے اہم مشن کی سپورٹ کیلئے آگے لایا جائے گا؟صوبے میں اس وقت کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جو ان دونوں کی جگہ لے سکے۔ اربابِ اختیار پر واضح ہونا چاہیے کہ سیاسی حمایت کے بغیر کوئی انتظامی اقدام کامیاب نہیں ہوسکتا۔
تیسرے سندھ حکومت کی جن خامیوں کو گورنر راج کا جواز بنایا جارہا ہے،وہ تو ملک کی باقی تین صوبائی حکومتوں میںبھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں۔کیا سندھ کے بعد بلوچستان،کے پی کے اور پنجاب کی باری آئے گی؟جس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے ملک میں سیاسی حکومتوں کو ہٹا دیاجائے گا؟سندھ کی موجودہ حکومت کو ہٹانے سے قبل مرکزی حکومت کو ان تمام سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں