"DRA" (space) message & send to 7575

افغان مذاکرات

7جولائی کو اسلام آباد میں افغانستان کی حکومت اور ملا عمر کی قیادت میں برسر پیکار افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بلا شبہ افغانستان کے محاذ سے بڑی اور حوصلہ افزا خبر ہے۔ ایسے مذاکرات کی گزشتہ 6برس سے کوشش کی جا رہی تھی۔ گزشتہ دو برسوں میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ترکی‘ قطر‘ اور چین میں بالواسطہ ملاقاتیں اور غیر رسمی بات چیت بھی ہو چکی ہے۔ تاہم ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ برآمد ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی تھی۔ اس کے علاوہ فریقین کے موقف میں بھی بہت بُعد تھا۔ طالبان کا ابتداء میں اصرار تھا کہ وہ افغان حکومت کو امریکہ کی پٹھو اور اس کی آلہ کار حکومت سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھیں گے‘ بلکہ امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے اور امریکہ کے ساتھ بھی اس وقت بات چیت پر آمادہ ہوں گے جب افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیں نکل جائیں گی۔ اس کے علاوہ طالبان کی دو اور شرائط بھی تھیں۔ اولاً موجودہ افغان آئین کو منسوخ کر کے''اسلامی امارت افغانستان‘‘ یعنی طالبان دور کے آئین کو نافذ کیا جائے اور ثانیاً ان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے بعض رہنمائوں کو دہشت گرد قرار دے کر اقوام متحدہ کی طرف سے ان پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ‘ ان کو ختم کیا جائے۔ سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فریقین کو مذاکراتی میز پر آمنے سامنے بٹھانے کی پہلی سنجیدہ کوشش کی گئی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔
مبصرین کے مطابق موجودہ مذاکرات کو ممکن بنانے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں اور کئی ملکوں نے بھی پس پردہ کام کیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے تو خود افغانستان میں سیاسی تبدیلی ہے۔ گزشتہ برس نئے صدر کی حیثیت سے اشرف غنی کے منتخب ہونے سے اس قسم کے مذاکرات کے امکانات اس لیے زیادہ روشن ہو 
گئے تھے کہ انہوں نے سابق صدر حامد کرزئی کے برعکس پاکستان کے بارے میں زیادہ دوستانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ پاکستان نے بھی مثبت جواب دیتے ہوئے صدر اشرف غنی کو ان کی امن کوششوں میں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم جناب نواز شریف ‘چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے افغانستان کا دورہ کر کے افغان صدر اور دیگر افغان حکام کو پاکستان کی طرف سے تعاون کا یقین دلایا تھا۔
اسلام آباد مذاکرات کے انعقاد میں چین کے کردار کا نمایاں طور پر ذکر کیا جا رہا ہے۔ چین کے اس مثبت کردار پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ جنوب ایشیائی ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام میں اُس کی دلچسپی عین قابل فہم ہے اس کے علاوہ افغانستان ہی میں جنگ جاری رہنے کی صورت میں چین کو اپنے صوبہ سنکیانگ میں انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے مسئلے پر قابو پانے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ صدر اشرف غنی بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے میں چین کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے جن ملکوں کا سب سے پہلے دورہ کیا تھا‘ ان میں چین بھی شامل تھا۔ اطلاعات کے مطابق بیجنگ میں چینی رہنمائوں کے ساتھ بات چیت میں افغان رہنما نے اس بات پر خاص زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات کی روشنی میں پاکستان پر دبائو ڈالیں کہ وہ افغان طالبان کو حکومت افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد دیں۔ یہی وجہ ہے کہ 
اگرچہ مذاکرات کے پہلے دور میں چین اور امریکہ کے نمائندے بطور مبصرین شریک تھے‘ ان مذاکرات کے انعقاد میں پاکستان کے کردارکو مرکزی اور فیصلہ کن قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے لیے بھی افغانستان میں امن اور مصالحت کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے تو ملک کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ ہے۔ اس وقت فوج شمالی وزیرستان میں، ایف سی بلوچستان میں اور رینجرز کراچی میں دہشت گردوں کے قلع قمع میں مصروف ہیں۔ لیکن اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر نظر رکھنے والے مبصرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں ہماری مغربی سرحدیں پر سکون نہیں ہو جاتیں‘ دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا کیوں کہ اس کے لیے پاک‘ افغان تعاون ضروری ہے۔ اور یہ تعاون اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے۔کہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کریں بلکہ مل کر افغانستان میں بھی امن اور مصالحت کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کروائیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میںچند عملی اقدام بھی کئے تھے اور اسلام آباد مذاکرات ان ہی اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاک افغان مشترکہ اقدام کی ضرورت کے علاوہ پاکستان کے سامنے 46بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے تعمیر ہونے والے اکنامک کاریڈور کی کامیابی کا مسئلہ ہے۔اس تاریخ ساز منصوبے کی کامیابی کیلئے جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان اور افغانستان پر مشتمل مغربی ایشیا میں امن اور استحکام ضروری ہے اور یہ مقصد افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمہ اور مصالحت کے عمل کو پروان چڑھائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
خود افغانستان میں بھی حالات نے حال ہی میں ایسی کروٹ لی ہے کہ نہ صرف افغان حکومت بلکہ طالبان بھی اپنے اپنے موقف میں لچک پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔ افغانستان میں اس سے قبل طالبان کو صرف افغان سکیورٹی فورسز اور نیٹو افواج سے لڑنا پڑتا تھا‘ اب ان کے مدمقابل ان سے بھی زیادہ انتہا پسند بہیمانہ کردار کے مالک داعش کے جنگجو ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کے زیر قبضہ علاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور خود طالبان تحریک کی صفوں میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں افغان طالبان نے ملک کے مختلف حصوں بلکہ دارالحکومت کابل کے انتہائی سکیورٹی والے مقامات مثلاً پارلیمنٹ پر حملے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں ‘ حملہ کر کے افغان سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ تاہم ان حملوں کے باوجود یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ طالبان ابھی تک اس قابل نہیں کہ وہ ملک کے کسی بڑے شہر یا وسیع علاقے پر اپنا مستقل قبضہ برقرار رکھ سکیں اور اس طرح ایک عبوری حکومت تشکیل دے پائیں۔ کابل میں پارلیمنٹ پر حملے کو افغان سکیورٹی فورسز نے جس مستعدی کے ساتھ ناکام بنایا۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان نیشنل آرمی اور سکیورٹی فورسز کی اطاعت اور طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی قوت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کو چھ ماہ ہونے کے باوجود طالبان ''حملہ کرو اور بھاگ جائو‘‘ کے علاوہ کوئی بڑی جنگی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ البتہ ان حملوں کے ذریعے طالبان نے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔ اور غالباً ان کی کارروائیوں کا بھی یہی مقصد تھا۔
یہ وہ حالات ہیں جو اسلام آباد مذاکرات کے پیش خیمہ بنے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ مذاکرات آگے کی طرف جاتے ہیں یا نہیں‘ اور ملک میں مستقل امن اور مصالحت کا کہاں تک امکان ہے اس سلسلے میں دونوں طرف سے محتاط اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ مذاکرات کا یہ پہلا دور تھا اور پہلے ہی دور میں کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ماضی کے برعکس مذاکرات کے اس پہلے دور سے چند حوصلہ افزا اشارات ملے ہیں۔ مثلاً فریقین نے عید کے بعد مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں طرف سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مذاکراتی عمل کو پوری سنجیدگی ‘ خلوص اور کمٹمنٹ کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باہمی اعتماد سازی کے اقدام کئے جائیں۔ اس کے لیے فریقین نے مذاکراتی عمل کے دوران میں ایک دوسرے پر بڑے حملے کرنے سے اجتناب کا اعلان کیا۔ غالباً ان ہی وجوہ کی بناء پر افغان حکومت کے نمائندے نے پہلے دور کے مذاکرات کو ''مثبت‘‘ اور وزیر اعظم نواز شریف نے ''بریک تھرو‘‘ قرار دیا۔ امریکہ چین اور بین الاقوامی برادری کے دیگر رکن ممالک نے بھی ان مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
لیکن مذاکرات کے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں۔ انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سب سے اہم فائر بندی اور اشتراک اقتدار کا فارمولا شامل ہیں۔ کیا افغان طالبان اپنے دیرینہ مطالبات سے پیچھے ہٹ کر کسی ایسے سمجھوتے پر راضی ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور استحکام پیدا ہو ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں