"DRA" (space) message & send to 7575

نواز شریف مودی ملاقات‘ مشترکہ اعلامیہ

آج کل پاکستان اور بھارت کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں روس کے شہر ''اوفا‘‘ (Ufa)میں شنگھائی تعاون کی تنظیم ایس سی او (SCO)کی سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان دو طرفہ ملاقات اور مشترکہ اعلامیہ کے مختلف پہلوئوں پر بحث جاری ہے۔ سب سے زیادہ لے دے اس بات پر ہو رہی ہے کہ کانفرنس ہال میں بھارتی وزیر اعظم‘ اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کرتے وقت اپنے کونے میں کھڑے رہے اور ہمارے وزیراعظم کو تمام راستہ چل کر مودی صاحب کے پاس جانا پڑا ۔ جس پر انہوں نے چند قدم آگے آ کر نوازشریف سے مصافحہ کیا ۔ پاکستانی حلقوں نے اسے سفارتی آداب کے منافی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے بھارتی رہنما کا تکّبر اور رعونت ظاہر ہوتی ہے۔ مسلمہ عالمی سفارتی آداب کے پیش نظر پاکستانی حلقوں کا یہ اعتراض اور احتجاج بالکل جائز ہے ۔ آج بین الاقوامی سیاسی نظام میں شامل تمام ممالک آزاد‘ خود مختار اورمقتدر اکایوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے مساوی ہیں خواہ آبادی‘ رقبے‘ وسائل اور عسکری قوت کے شعبوں میں ان کے درمیان کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو۔ اس کی بہترین مثال اقوام متحدہ ہے جس کی بنیاد ہی آزاد اور خود مختار قوموں کے درمیان مساوات پر رکھی گئی ہے۔ اس کے سب سے بڑے ادارے جنرل اسمبلی کے اراکین میں سپر پاور امریکہ اور بھوٹان جیسا چھوٹا ملک بھی شامل ہے‘ لیکن ان سب کو اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے مساوی درجہ حاصل ہے۔
جنوبی ایشیا کے چھوٹے اور بھارت کے ہمسایہ ممالک کو ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ ان سے معاملات طے کر تے وقت بھارت ان کے ساتھ برابری کا سلوک روا نہیں رکھتا۔ یہ شکایت پاکستان کو ہی نہیں بلکہ نیپال‘ بنگلہ دیش اورسری لنکا کو بھی ہے۔ اسی وجہ سے ہمسائیگی اور قربت ہونے کے باوجود ان ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں ہر قدم پر عدم اعتماد کی جھلک نظر آتی ہے۔ ''اوفا‘‘ میں نریندر مودی کا رویہ اس تاریخی حقیقت کا حصہ ہے۔
لیکن اس سے ہٹ کر اگر وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات اور اس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے حوالے سے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی وجہ سے اس ملاقات اور دونوں ملکوں کی جانب سے معطل شدہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ یاد رہے کہ امن مذاکرات کا یہ سلسلہ جو 2004ء میں شروع ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے متعدد اقدامات کئے گئے تھے‘ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے تعطل کا شکار چلا آ رہا تھا‘ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈا جاری تھا۔ جنوبی ایشیا اور خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات اور امن کے متمنی بین الاقوامی حلقے اس صورتحال پر پریشان تھے۔ خود پاکستان‘ بھارت اورکشمیرمیں عوام کی بھاری اکثریت بھی اس صورتحال پر ناخوش تھی۔ ''اوفا‘‘ میں پاکستان اور بھارتی وزرائے اعظم کے اس فیصلے سے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب دیرینہ مسائل کے حل کے لیے امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے خوش آئند فیصلہ ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی کم اور غیر یقینی کی صورتحال ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی‘ آئے دن کی سرحدی جھڑپوں اور دونوں طرف سے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے سخت تنائو بلکہ کسی بڑے ممکنہ تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اس وقت دہشت گردی‘ افغانستان کی صورتحال اور ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے پوری دنیا کی توجہ جنوبی ایشیا پر مرکوز ہے۔ اس خطے میں امن اور استحکام کے بغیر نہ تو وسطی ایشیا کے رابطے جنوبی ایشیا کے ساتھ قائم ہو سکتے ہیں‘ نہ جنوب مشرقی ایشیا سے شروع ہو کر جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا کے راستے یورپ کو ملانے والے ریل اور سڑک کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ چین کی 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاک چین اکنامک کاریڈور کی تعمیر کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا‘ جب تک کہ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت پر مشتمل پورے خطے میں امن اور استحکام قائم نہیں ہو جاتا اور اس کا تمام تر انحصار پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر ہے۔
2004ء میں پاک بھارت امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے چار سے زائد دور ہو چکے مگر اس کے باوجود اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر‘سیاچین اور پانی جیسے اہم مسائل پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی؛ تاہم دیگر شعبوں مثلاً عوامی سطح پر روابط‘ پہلے سے موجود دو ریلوے اور تین نئے سڑکوں کے روٹ‘ اور لائن آف کنٹرول کے آرپار آمدو رفت اور تجارت کے لیے مظفر آباد سری نگر بس سروس اور راولا کوٹ‘ پونچھ کے درمیان تجارت کے راستوں کی تعمیر‘ میں دونوں ملکوں کے عوام کو اہم فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اعتماد سازی کے ان اقدام کو سرحد کے دونوں طرف رہنے والے شہریوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کا شدید مطالبہ ہے کہ مظفر آباد‘ سری نگر روٹ پر چلنے والی بس کے دنوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے علاوہ آبادی کے دیگر طبقوں مثلاًتاجر ‘ صحافی طالب علموں اور سیاحت کی خاطر عام لوگوں کو بھی سفر کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح سات سال سے جاری رہنے کے باوجود لائن آف کنٹرول کے آرپار کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ ابھی تک محدود ہے۔ دونوں طرف سے اس میں اضافے اور مزید سہولتوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اگر نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کی وجہ 
سے پاک بھارت امن مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہ ہوتا‘ تو نہ صرف لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت میں اضافہ ہوتا‘ بلکہ مظفر آباد سری نگر بس روٹ پر عام کشمیریوں کو بھی سفر کی اجازت مل گئی ہوتی۔ کشیدگی سے پاک تعلقات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے عوام کو پہنچنے والے ان فوائد کا اعتراف نہ صرف دونوں ملکوں میں کیا جاتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی ستائش کی جاتی ہے اور خطے کے عوام کی بھلائی کے لیے ان اقدام کو ضروری قرار دے کر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے دوطرفہ بات چیت کے ذریعہ دیگر حل طلب مسائل مثلاً کشمیر اور سیاچن جیسے پیچیدہ تنازعات طے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان آمدو رفت‘ تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ ان اقدامات کو جنوبی ایشیا میں امن استحکام اور ترقی کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے اور اس کے پیش نظر بڑی عالمی طاقتیں جن میں چین‘ روس اور امریکہ شامل ہیں‘ پاکستان اوربھارت کی حکومتوں پر امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے اور کشیدگی کم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ 
پاکستان اور بھارت کے لیے امن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ اس پر بین الاقوامی اتفاق رائے ابھر رہا ہے۔ روس کے شہر ''اوفا‘‘ میں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان امن مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرانے کے فیصلے میں روسی اور چین کا بنیادی کردار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور امریکہ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اس مسئلے پر تمام بڑی طاقتیں ایک صفحہ پر ہیں۔ اس حقیقت کو نہ پاکستان نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ بھارت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں