"DRA" (space) message & send to 7575

کیا اسرائیل جوہری معاہدہ روک سکے گا؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے تمام 15 ارکان نے جن میں 5مستقل اور ویٹو پاور کے مالک ممالک بھی شامل ہیں‘ متفقہ طور پر اس معاہدے کی منظوری دی ہے۔ صدر اوباما نے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امریکی کانگرس کے لیے ایک اہم پیغام قرار دیا اور کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاہدے کو عالمی برادری کی متفقہ حمایت حاصل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس معاہدے کا راستہ روکیں گے کیونکہ بقول ان کے یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اسرائیل میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دیگر دائیں بازو کے سیاستدان اس معاہدے کی ایک دوسرے سے بڑھ کر مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل سے باہر کسی ملک یا کسی شخصیت کی طرف سے اسرائیل کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی۔ بلکہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی حیثیت سے برطانیہ‘ فرانس اور روس کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق ثابت کرتی ہے کہ یورپ‘ اسرائیل کے موقف سے متفق نہیں۔ ان کے ساتھ جرمنی کی شرکت نے یورپ میں اسرائیل کی پوزیشن کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔1948ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل کو بین الاقوامی برادری میں اس حد تک الگ تھلگ نہیں ہونا پڑا تھا۔ خصوصاً یورپ کی طرف سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر کامیاب بات چیت اور اس کی حمایت ‘ اسرائیل کے ایک ایک ایسا دھچکا ہے جس کا اثر نہ صرف 
اس کی علاقائی پالیسی بلکہ اس کی اندرونی سیاست پر بھی پڑے گا‘ کیونکہ اس معاہدے کے بعد اسرائیل میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے اور حزب مخالف کی طرف سے ان پر مستعفی ہونے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل میں حکومت مخالف سیاستدانوں اور میڈیا کی طرف سے نیتن یاہو پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا تمام سیاسی کیریر اس دائو پر لگایا تھا کہ وہ اس معاہدے کو روک سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ مارچ میں امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر پر امریکہ کی دونوں پارٹیوں یعنی ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک کی طرف سے بھر پور داد حاصل کر کے اسرائیلی ووٹرز کو یقین دلایا تھا کہ وہ واقعی اس معاہدے کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن یہ معاہدہ نہ صرف طے پایا گیا‘ بلکہ امریکی کانگریس میں نظر ثانی سے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی منظوری دے کر ایران پر عائد پابندیوں کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
اب نیتن یاہو کی تمام کوششوں کا مرکز امریکی کانگرس ہے جہاں اسرائیلی وزیر اعظم کا ساتھ دینے والے متعدد ارکان موجود ہیں۔ کانگرس میں اس وقت صدر اوباما کی مخالف پارٹی ری پبلکن کو اکثریت حاصل ہے لیکن ان کی اپنی ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان بھی اسرائیل کے موقف کے حامی ہیں‘ اس لیے صدر اوباما نے کانگرس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے معاہدے کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ اسے ویٹو کر دیں گے۔ کانگرس کے پاس اس معاہدے کو منظور یا مسترد کرنے کے لیے 60 دن ہیں۔ امریکی آئین کے مطابق خارجہ پالیسی چونکہ صدر کے اختیارات میں شامل ہے اس لیے اگر کانگرس صدر کے کسی فیصلے کو مسترد کرتی ہے تو صدر اپنا خصوصی اختیار یعنی ویٹو استعمال کر کے کانگرس کے فیصلے کو غیر موثر بنا سکتے ہیں۔ تاہم اگر کانگرس کے دونوں ایوان‘ یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کرتی ہے تو اس صورت میں صدر اپنا حق استرداد یعنی ویٹو استعمال نہیں کر سکتے۔
اگرچہ امریکی کانگرس میں اسرائیل کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہ صدر اوباما کو یقینا ٹف ٹائم دیں گے؛ تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ امریکی کانگرس دو تہائی اکثریت سے یہ معاہدہ مسترد کردے گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکی کانگرس کی طرف سے اس معاہدے کو مسترد کر دیا گیا تو یہ نہ صرف بہت بڑی تباہی ہو گی بلکہ عالمی برادری کا بھی امریکہ سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ جان کیری نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ صرف امریکہ اور ایران کے درمیان نہیں بلکہ اس میں امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک یعنی برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف اس معاہدے کے لیے مذاکرات میں حصہ لیا بلکہ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ جان کیری نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر امریکہ اس معاہدے کی پابندی میں ناکام رہتا ہے تو اس کے یورپی اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور وہ اپنے طور پر ایران کے خلاف عائد شدہ پابندیوں کو ختم کر کے تہران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کر لیں گے۔ یاد رہے کہ جرمنی کے وزیر برائے اقتصادی امور سگمر جریل ‘ جرمن تاجروں اور کاروباری لوگوں پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ تہران پہنچ چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق دیگر یورپی ممالک بھی اپنے وفود تہران بھیجنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں اس معاہدے کا جس طرح خیر مقدم کیا گیا ہے‘ اس کے پیش نظر امریکی کانگرس کے لیے اس معاہدے کو مسترد کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ اس معاہدے کو ممکن بنانے میں جہاں ایران ‘ یورپی ممالک اور امریکہ کے نمائندوں کی شب و روز محنت کو نمایاں دخل ہے‘ وہاں روس اور چین کا مثبت کردار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطے میں حالات جس تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں‘ ان کے پیش نظر کوئی ملک خصوصاً بڑی طاقتوں میں سے کوئی بھی اس معاہدے کو مسترد کر کے خطے میں حالات کو مزید تشویشناک بنانے پر تیار نہیں۔ اس لیے امید ہے کہ صدر اوباما اسرائیل کے شدید ردعمل کے باوجود‘ اس معاہدے کو امریکی کانگرس سے اگر منظور کروانے میں کامیاب نہ سہی لیکن دو تہائی اکثریت سے مسترد ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں صدر اوباما نے پہلی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسرائیل کے چند پکے حامی کانگرسی ارکان نے صدر اوباما سے مطالبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ابھی اس معاہدے کی توثیق نہ کروائی جائے اور اس سلسلے میں کانگرس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ لیکن صدر اوباما نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے‘ معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ اس معاہدے کو کانگرس کا یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔ سلامتی کونسل کی طرف سے اس معاہدے کی متفقہ توثیق کے بعد امریکی کانگرس کے لیے اسے مسترد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ دوسری طرف صدر اوبامل نے امریکی کانگرسی ارکان کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگرس پر سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں تاکہ معاہدے کے مخالفین‘ دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل نہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی وزیر دفاع اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے اسرائیلی خدشات کو دور کرنے کے لیے بیان دیا تھا کہ معاہدے کے باوجود امریکہ ایران کے خلاف ملٹری آپشن برقرار رہے گا۔ سلامتی کونسل میں بھی امریکی مندوب نے اپنی تقریر میں اسرائیل کو راضی کرنے کے لیے کہا ہے کہ معاہدے کی رُو سے اگر ایران کی طرف سے خلاف ورزی ہوئی تو اقتصادی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں