تقریباً تیرہ برس کی کوششوں کے بعد بالآخر ایران اور چھ بڑی طاقتوں یعنی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس ‘ چین اور جرمنی کے درمیان ایک ایسے جوہری معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جس کے تحت بقولامریکی صدر بارک اوبامہ ایران کے ایک ایٹمی طاقت بننے کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام جس کے بارے میں اس نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے ہے، پر انتہائی سخت پابندیوں کو قبول کر لیا ہے۔ ان پابندیوں میں ایران کے پاس اس وقت 19000 سنٹری فیوجز کی تعداد کو کم کر کے 6000اور 10,000 کلو گرام افزودہ یورینیم کو 300کلو گرام (تقریباً98فیصد) حد تک گھٹانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے اس پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے کہ اقوام متحدہ کے ایٹمی ادارے یعنی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے انسپکٹر جب چاہیں جہاں چاہیں ایران کی ایٹمی تنصیبات جن میں فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں کا معائنہ کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں ایران اور امریکہ کے درمیان ایک بڑے تصادم کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ مبصرین اسے صدر اوبامہ کی خارجہ پالیسی کی ایک بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔ خود صدر اوبامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاہدے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایران کے اندر بھی حالات بہتر رخ اختیار کریں گے۔ ان کے اس بیان کی تائید ایران کے صدر حسن روحانی کے ان ریمارکس سے بھی ہو جاتی ہے کہ ایران ساری دنیا اور خصوصاً مغربی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے ۔امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے ایران وزیر خارجہ ظریف کے ساتھ ان پیچیدہ مذاکرات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔ ایران میں بھی اس معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ایران اور دیگر ممالک کے لیے وِن۔ وِن (Win-Win) پوزیشن کا حامل ہے۔ جہاں تک امریکہ اور اس کے ساتھ مذاکراتی ٹیم میں شامل ممالک کا تعلق ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ ایران کے ساتھ ان کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو گا اور اس طرح ان کی بیمار معیشتوں کو سہارا ملے گا۔
معاہدے پر عملدرآمد سے ایران کو بھی اہم فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے۔ سب سے اہم ایران پر عائد شدہ اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہے جن کی وجہ سے ایران کی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ ان پابندیوں سے ایران کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران جو ایک زمانے میں سعودی عرب کے بعد تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا‘ اس کے تیل کی برآمد ایک چوتھائی تک گر چکی تھی۔ اس کی وجہ سے ایران میں نہ صرف ترقی کا عمل رک چکا تھا بلکہ عالمی منڈی میں اس کی کرنسی کی قیمت بھی خطرناک حد تک گر چکی تھی۔ ملک کے اندر مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی کم یابی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو چکا تھا اور ایران کا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ سخت اضطراب اور غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہا تھا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد ہونے کے بعد ایران کو نہ صرف بیرونی بنکوں میں منجمد اپنے 150بلین ڈالر کی خطیر رقم مل جائے گی بلکہ اس کے تیل اور گیس کی برآمد پر عائد شدہ پابندیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس آمدنی سے ایران میں تعمیر و ترقی کے عمل میں تیزی آئے گی جس کے نتیجے میں نہ صرف ایران کو اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ اردگرد کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، نئی صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ایران پر عائد شدہ عالمی پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تکمیل کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
اس معاہدے کو اگرچہ وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے تاہم اس کو درپیش کچھ خطرات اور مشکلات کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک تو امریکی کانگریس جہاں اپوزیشن ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے کی طرف سے مخالفت کا امکان ہے۔ گزشتہ مارچ میں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خطاب کے دوران امریکی کانگرسی ارکان نے جس موڈ کا مظاہرہ کیا تھا اس کے پیش نظر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ امریکی کانگرس میں اس معاہدے کو بلاک کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے کانگرس کوئی قانون بھی منظور کر سکتی ہے۔ لیکن صدر اوباما نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی کانگرس نے ایسا کوئی قانون منظور کیا تو وہ اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے‘ ایسے قانون کو ویٹو کر دیں گے۔ امریکی آئین کے تحت کانگرس کو اس معاہدے پر 60دن کے اندر نظرثانی کا اختیار حاصل ہے۔
توقع کے عین مطابق اسرائیل اور سعودی عرب کی طرف سے بھی اس معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس موقع پر بیان دیتے ہوئے اس معاہدے کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی اور اسرائیل کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات روشن ہونے کی بجائے جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور اپنے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ عالمی پابندیوں کے خاتمے سے ایران کی آمدنی میں جو اضافہ ہو گا، ایران اسے نہ صرف مستقبل میں ایٹم بم بنانے پر خرچ کرے گا بلکہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی مخالف تنظیموں یعنی حماس اور حزب اللہ کی اعانت کرے گا لیکن امریکہ اور یورپی ممالک نے اس خدشے کو رد کرتے ہوئے اس کے برعکس دعویٰ کیا ہے کہ اس معاہدے کے بعد نہ صرف ایران اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے‘ بلکہ خود ایران کے اندر بھی تبدیلی کا ایک ایسا عمل شروع ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں اعتدال پسند اور انتہا پسندی کے مخالف عناصر پالیسی سازی میں غالب مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کی طرف سے اس معاہدے کی مخالفت کی وجہ حال ہی میں خطے کے اندر چند مسائل پر ایران کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ ان میں شام اوریمن کے مسائل شامل ہیں۔ امریکی میڈیا کے بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اس معاہدے کی مخالفت کی وجہ سے خطے میں شیعہ ‘ سنی تصادم اور شدید صورت اختیار کر سکتا ہے لیکن یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد اور بلا جواز ہے کہ مشرق وسطیٰ کی پوری تاریخ میں آج تک کوئی سیاسی اور سٹریٹجک مسئلہ شیعہ ‘ سنی فریم ورک میں تصادم کا باعث نہیں بنا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب کا موقف اس کی حکومت کا موقف ہوسکتا ہے لیکن خطے میں موجود باقی سنی ممالک کی نمائندگی نہیں کرتا‘ اس کی سب سے نمایاں مثال پاکستان ہے۔ جس نے اس معاہدے کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔
اس کے ساتھ اسرائیل اور سعودی عرب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاہدہ صرف ایران اور امریکہ کے درمیان طے نہیں پایا‘ بلکہ اس میں یورپی یونین کے علاوہ روس اور چین بھی شامل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ معاہدہ دراصل مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے مسئلے پر بین الاقوامی اتفاق رائے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس بین الاقوامی اتفاق رائے کے خلاف جانے میں کون کون سے خطرات پنہاں ہیں۔
تاہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس معاہدے کا تعلق صرف ایران کے جوہری پروگرام سے ہے۔ اس کے حصول کے لیے جو مذاکرات ہوئے ان میں خطے کے دیگر مسائل مثلاً مسئلہ فلسطین ‘ شام اور یمن کے تنازعات زیر بحث نہیں آئے ۔ اس لیے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اور اگر ان کے حل کی طرف جلد کوئی پیش قدم نہ ہوئی تو خطے میں کشیدگی‘ بلکہ تصادم کا باعث بن سکتے ہیں اس لیے اس تاریخی معاہدے کے بعد بھی اس خطے کے دیگر مسائل جو ایران کے جوہری پروگرام کی طرح دھماکہ خیز ہیں ‘ کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کی ذمہ داری برقراررہتی ہے۔