وزیراعظم کے مشیر خارجہ و قومی سلامتی جناب سرتاج عزیز کی طرف سے تصدیق کے بعد اب یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں یعنی سرتاج عزیز اور اجیت ڈوول‘ 23 اور 24 اگست کو نئی دہلی میں ملاقات کریں گے۔ لیکن کیا یہ مذاکرات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کسی بڑی پیش رفت یا بریک تھرو کا باعث بن سکتے ہیں؟ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر دونوں طرف سے مسلسل فائرنگ اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کی وجہ سے اس وقت ماحول میں جو کشیدگی پائی جاتی ہے‘ اس کے پیش نظر دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ خود سرتاج عزیز نے مذاکرات پر پاکستان کی آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملاقات سے کسی بریک تھرو کی امید نہیں کی جا سکتی؛ البتہ جنوری 2013ء سے معطل امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ نے 23 اور 24 اگست کی مجوزہ ملاقات کو جس طرح خوش آمدید کہا گیا ہے‘ وہ امید افزا ہے۔ حال ہی میں دونوں اطراف کے رہنمائوں اور سفارت کاروں نے جو بیانات دیئے ہیں‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کی خواہش سرحد کے دونوں جانب موجود ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بیلاروس کے دورہ کے دوران اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی جاری ہونے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں کیونکہ ان میں اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو صرف بات چیت کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر رگھوبان نے بھی حال ہی میں لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے د ونوں ملکوں کے یوم آزادی کے موقع پر تہنیتی پیغامات کا تبادلہ کیا ہے‘ ان سے بھی فریقین کے درمیان سردمہری کے خاتمہ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی گزشتہ 6 دہائیوں سے زیادہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ انتہائی کشیدہ ماحول اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود دونوں جانب سے امن کی خواہش ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ خواہش اکثر حالات میں باہمی مذاکرات پر منتج ہوتی رہی ہے۔ 1950ء کا لیاقت‘ نہرو پیکٹ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر جنگ کے بعد طے ہوا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تھے اور شملہ معاہدہ 1971ء کی جنگ کے بعد معرض وجود میں آیا تھا۔ 2004ء میں شروع ہونے والا امن اور دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ بھی 2001-2ء کی محاذ آرائی کا پیداوار تھا۔ اس سے صاف نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن ناگزیر ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔ تین جنگیں لڑنے کے بعد دونوں ملکوں کی قیادت اس پختہ یقین کی حامل نظر آتی ہے کہ جنگ کوئی آپشن نہیں اور باہمی تنازعات پرامن مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔
اسی پیرائے میں اگر دیکھا جائے تو 23 اور 24 اگست کو نئی دہلی میں ہونے والے مذاکرات پر دونوں ملکوں کی طرف سے رضامندی خوش آئند ہے۔ پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے عوام کی خواہش ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی دوطرفہ مذاکرات یعنی کمپوزٹ ڈائیلاگ دوبارہ شروع کردیں کیونکہ ان ہی کے ذریعے کشمیر سمیت حل طلب مسائل پر سمجھوتہ ممکن ہے۔ اس کے لیے بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ اور چین کی طرف سے بھی پاکستان اور بھارت پر دبائو ہے۔ افغانستان کی مخدوش اور غیر یقینی صورت حال اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کی نہ صرف چین‘ امریکہ اور افغانستان بلکہ پاکستان کی طرف سے بھی خواہش اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود سرحدی کشیدگی ختم ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب مسائل کو طے کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔
اس لیے 23 اور 24 اگست کے ہونے والے مذاکرات اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کوئی بڑی اور ڈرامائی تبدیلی نہیں لا سکتے تو کم از کم دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر امن کے قیام پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی روس میں حالیہ سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب محمد نوازشریف نے لائن آف کنٹرول پر امن کے قیام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کی ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈا بند کرنے‘ ایک دوسرے کے ہاں قید ماہی گیروں اور دیگر قیدیوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی اور مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے سہولیات مہیا کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ اقدامات صرف اعلانات تک ہی محدود رہے ہیں اور ان میں کسی پر بھی پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا۔
میرے خیال میں سرتاج عزیز اور اجیت ڈوول 23 اور 24 اگست کو مذاکراتی میز پر جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں تو انہیں فوری طور پر اُن اقدامات کا نہ صرف اعادہ کرنا چاہیے بلکہ ان پر پوری سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد پر زور دینا چاہیے کیونکہ ان اقدامات پر عمل درآمد کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو سکتی ہے جو ایک عرصہ سے موجود اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔
ان اقدامات میں سے اہم اور فوری توجہ کا حامل‘ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آرپار فائرنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر تو یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے دونوں طرف بسنے والے لوگ نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد اس فائرنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں فوجی جوان ہی نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد شہریوں کی شامل ہے۔ مسلسل فائرنگ کی وجہ سے لوگ سرحد کے قریب واقع زمینوں پر فصلیں نہیں اُگا سکتے۔ بچوں کے سکول بند ہیں جس کی وجہ سے بچے اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے۔ سرحد کے دونوں طرف گھروں‘ ہسپتالوں اور سکولوں کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہٹ کیا جا رہا ہے۔ سرحد کے قریب واقع دیہات اور قصبوں میں رہنے والے لوگ اپنے اہلِ خانہ اور مویشیوں کے ساتھ سرحد سے دور مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ 2003ء کے معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ملحقہ علاقوں میں سیاحت اور کاروبار کے فروغ کے لیے ہوٹلوں اور چھوٹی صنعتوں کی تعمیر کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آزاد کشمیر کی نیلم وادی کو اس مقصد کے لیے خاص طور پر چُنا گیا تھا اور اس میں اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کار سرمایہ لگانے پر تیار تھے‘ لیکن اب یہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کو اگر اپنے لاکھوں لوگوں کی جان اور مال عزیز ہے تو سب سے پہلے 23 اور 24 اگست کی ملاقات میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر امن کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔