وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ قازقستان کا اگرچہ بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات خصوصاً تجارت ‘ سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینا تھا‘ تاہم پاکستانی رہنما سے اپنی ملاقات میں قازقستان کے وزیر اعظم کریم میسیوف نے اپنے ملک کی طرف سے پاک ـ چین اکنامک کاریڈور کے میگا پروجیکٹس میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر کے‘ وزیر اعظم کے دورہ قازقستان کو ایک نئی اہم اور جہت بخشی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس خواہش کا خیر مقدم کرتے ہوئے‘ قازقستان کو پاک چین اکنامک کاریڈور سے منسلک کرنے کی دعوت دی ہے۔ بیلارس کے بعد قازقستان دوسرا بڑا ملک ہے جس نے پاکستان چین اکنامک کاریڈور میں شمولیت کا اعلانیہ اظہار کیا ہے۔ ان دو ممالک کے علاوہ مزید کئی ممالک بھی پاکستان اور چین کے اس عظیم منصوبے میں شمولیت کا اظہار کریں گے۔ اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چین کے ڈپٹی وزیر اعظم ژانگ گائولی نے بیجنگ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ اس کاریڈور کی بدولت پاکستان کے صرف چین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ دُنیا کے تقریباً 60ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات استوار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان ـ چین اکنامک کاریڈور صرف پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ ترقیاتی منصوبہ نہیں رہے گا‘ بلکہ یہ ایک علاقائی اور عالمی نوعیت کا منصوبہ ثابت ہو گا، کیونکہ اس کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس کے ساتھ وابستہ ہونے کی خواہش کا اظہار کریں گے۔
جہاں تک قازقستان کا تعلق ہے‘ اس کی طرف سے اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش کا مقصد، قازقستان کے وزیر اعظم کے الفاظ میں پاکستان کے راستے سمندر تک رسائی حاصل کرنا ہے، کیونکہ قازقستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے اور اسے براہ راست سمندر تک رسائی حاصل نہیں۔ اسے اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے روس اور چین کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لیکن سمندر تک رسائی کے یہ راستے بہت طویل ہیں اور ان کے ذریعے قازقستان کو اپنا مال باہر بھیجنے یا باہر سے منگوانے کے لیے نہ صرف زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں ‘ بلکہ وقت بھی کافی صرف ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے راستے سمندر تک رسائی کا فاصلہ کم ہے اور اس کے ذریعہ تجارتی سامان کی درآمد اور برآمد پر اخراجات بھی کم آئیں گے۔
لیکن جیسا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ قازقستان کے دوران میں میزبان ملک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدات کی یادداشتوں (MOUs)کی تفصیلات سے ظاہر ہے‘ قازقستان کے لیے پاک‘چین اکنامک کاریڈور میں شمولیت کے فوائد صرف سمندر تک آسان اورکم فاصلے والی رسائی تک محدود نہیں رہیں گے‘ بلکہ وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اس منصوبے میں شامل ہو کر قازقستان اس پورے خطے کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر سکے گا، کیونکہ قازقستان رقبے کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ زیر زمین اور دیگر قدرتی وسائل وجہ سے وسطی ایشیا کا ایک اہم اور امیر ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی علاقائی تعاون اور ترقی کے عمل میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان‘ چین اکنامک کاریڈور میں قازقستان کی شمولیت اس لحاظ سے اور بھی اہمیت کی حامل ہے کہ قازقستان پہلے ہی چین کے''نیوسلک روڈ‘‘ کے منصوبے کا حصہ ہے، اس منصوبے کا مقصد چین کے مغربی حصے کو قازقستان اور روس کے راستے مغربی یورپ سے ملانا ہے۔ اس مقصد کے لیے 8445کلو میٹر طویل انٹرنیشنل کاریڈور تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کاریڈورکا 2,787کلو میٹر حصہ قازقستان سے گزرے گا۔ اس انٹرنیشنل کاریڈور کو ایک اور تجارتی شاہراہ سے ملا دیا جائے گا جو قازقستان سے شروع ہو کر ترکمانستان کے راستے ایران کی خلیج فارس کے ساحل پر واقع بندرگاہ تک جاتی ہے۔ قازقستان کے لیے یہ تجارتی شاہراہ اس لیے اہم ہے کہ وہ ایران کے راستے اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت جاری رکھ سکتا ہے لیکن پاکستان، چین اکنامک کاریڈور میں شمولیت سے قازقستان کو پاکستان کے راستے بحر ہند اور بحیرہ عرب تک جو رسائی حال ہوگی وہ ترکمانستان اور ایران کے راستے رسائی سے کہیں زیادہ منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو فاصلہ کم ہے اور دوسرے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے قازقستان کو پاکستان، چین اکنامک کاریڈور کے کمانڈ ایریاز میں توانائی کے منصوبوں میں شرکت اور سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔ اس سے ایک طرف قازقستان کی معیشت مستحکم ہو گی اور دوسرے ایشیا میں علاقائی تعاون برائے ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔
وزیر اعظم کے دورے کے دوران میں پاکستان اور قازقستان کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر تجارت‘ سرمایہ کاری‘ انفراسٹرکچر‘ توانائی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کے لیے جن اقدامات پر اتفاق کیا گیا ‘ وہ وسیع تر علاقائی تعاون کے عمل کو تیز کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں نے باہمی اقتصادی تعاون اور تجارت بڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو آزادی حاصل کئے تقریباً 25 برس گزر چکے ہیں۔ پاکستان نے آغاز میں ان ملکوں کے ساتھ معاشی‘ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھااوراس مقصد کے لیے دونوں طرف سے اعلیٰ ترین سطح کے حکومتی وفود کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں خصوصاً قازقستان کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون برائے نام ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس افسوسناک صورت حال کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے‘ دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان اور قازقستان کے درمیان متعدد شعبوں میں وسیع تجارت اور اقتصادی تعاون کے مواقع موجود ہیں۔ ان شعبوں میں کپاس کی مصنوعات‘ فارما سیوٹیکل پراڈکٹس‘ خوراک کی اشیا، انجینئرنگ کا سامان‘ مشینری اور تعمیراتی سامان شامل ہیں۔ اس طرح قازقستان کی مدد سے پاکستان اپنی توانائی کی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ پاکستان اور قازقستان، چین اور کرغیزستان کے ساتھ ایک چہار فریقی معاہدے میں بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد ان ممالک کے درمیان ریل اور سڑک کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی سہولیات کو بہتر بنانا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورے کے دوران میں اسی معاہدے پر عملدرآمد کو تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی قازقستان کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں سالانہ اجلاس کے موقع پر قازقستان کے لیے سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دو طرفہ بنیادوں پر پاکستان اور قازقستان کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے وزیر اعظم کے دورہ کے دوران میں تین ایم او یوز پر دستخط کئے گئے ہیں۔ ان کا مقصد تجارت‘ سرمایہ کاری‘ دفاع‘ سٹریٹیجک سٹڈیز اور فارن سروس ٹریننگ کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان اور قازقستان بلکہ وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کے مواقع تو بہت ہیں لیکن فریقین ان مواقع سے اب تک جن وجوہ کی بنیاد پر فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں ‘ ان میں افغانستان کی خانہ جنگی اور پاک ‘ بھارت کشیدگی شامل ہیں۔ اس لیے آئندہ اگر پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں بشمول قازقستان باہمی تجارت‘ اقتصادی تعاون اور ثقافتی روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ان دو اہم مسائل کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔