وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی،سرتاج عزیز اوائل ستمبر میں کابل تشریف لے گئے تھے۔اس دورے کا مقصد افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس برائے اقتصادی تعاون میں پاکستان کی نمائندگی کرنا تھا۔یہ کانفرنس‘ جس کے انعقاد کا سلسلہ 2005ء میں شروع ہوا،اپنی نوعیت کی چھٹی کانفرنس تھی اور اس کا مقصد افغانستان اور اس خطے کے مختلف ممالک کے درمیان علاقائی تعاون برائے اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ان ممالک میں چین،وسطی ایشیا کی ریاستیں،ترکی،ایران،بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 2005ء میں کابل میں ہوئی تھی۔ دوسری کانفرنس دہلی،تیسری اسلام آباد،چوتھی استنبول اور پانچویں یعنی گذشتہ کانفرنس2012ء میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ہوئی تھی۔ کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے نہ صرف اس کے مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا،بلکہ اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے اب تک کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کا بھی ذکر کیا‘ جن میں طورخم کابل شاہراہ کی تعمیر،پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ (2010ء)پر دستخط اور پاکستان کی طرف سے واہگہ اور طورخم کے مقامات پر تجارتی سہولیات مہیا کرنے کیلئے چوکیوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
کانفرنس میں شرکت کے علاوہ جناب سرتاج عزیز کے دورئہ کابل کا مقصد افغان رہنمائوں سے ملاقات اور چند حالیہ واقعات کی وجہ سے پاک افغان تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی دور کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرنا بھی تھا۔ جناب سرتاج عزیز اور افغانستان کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات تو ضرور ہوئی اور تعلقات کی موجودہ صورتِ حال بھی ضرور زیربحث آئی ہوگی‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے
درمیان اختلافات اور کشیدگی کا ماحول بدستور برقرار ہے۔کابل میں اْنہوں نے افغان وزیرخارجہ کے علاوہ صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی لیکن ان ملاقاتوں کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات آگے بڑھتے ہوئے نظر نہیں آتے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ابھی سرتاج عزیز بمشکل اسلام آباد پہنچے ہی تھے کہ افغان حکومت کی جانب سے ایک دفعہ پھر الزام لگایا گیا کہ افغان طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے جنگجو پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع اپنے محفوظ ٹھکانوں سے افغانستان کے اندر عسکری کارروائیاں کررہے ہیں۔افغان حکومت نے اپنے بیان میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیاکہ وہ حقانی نیٹ ورک کے ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرے اور ان جنگجوئوں کو افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے روکے۔اس کے جواب میں پاکستان نے اپنے ہاں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی سے انکار کیا ہے۔اس ضمن میں بیان دیتے ہوئے جناب سرتاج عزیز نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے اڈے افغانستان کے اندر واقع ہیں اور اگر اْن میں سے کچھ پاکستان میںموجود تھے تو قبائلی علاقوں میں فوج کے جاری آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں‘ لیکن افغان حکومت پاکستان کے اس جواب سے مطمئن نہیں‘ کیونکہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے نہ صرف ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری افواج اور تنصیبات پر حملے جاری ہیں‘ بلکہ گزشتہ ماہ دارالحکومت کابل میں بھی ایسے مقامات پر‘ جو انتہائی
محفوظ سمجھے جاتے تھے، حملے ہوئے اور متعدد افراد مارے گئے۔ان میں افغان پولیس کے ارکان اور عام شہریوں کے علاوہ تین امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ایک اطلاع کے مطابق صرف ایک ماہ میں پچاس کے قریب افراد ان دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنے۔اس پر نہ صرف افغان حکومت بلکہ امریکہ کی طرف سے بھی سخت ردِعمل کا اظہار کیا گیا۔ امریکی تشویش کا اظہار کرنے کیلئے30اگست کو امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سوسن رائیس نے اسلام آباد کا دورہ بھی کیا تھا۔ اپنے دورہ میں امریکی افسر نے وزیراعظم محمد نوازشریف کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی تھی‘ اور اطلاعات کے مطابق اْنہوں نے پاکستانی رہنمائوں کو افغانستان میں تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر اپنی حکومت کی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سوسن رائیس نے کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں ہونے والے ان حملوں کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک کو ٹھہرایا اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو ان کارروائیوں سے روکنے کیلئے پاکستان مزید اقدامات کرے۔مبصرین کے مطابق سوسن رائیس کا اچانک دورئہ پاکستان‘ اور اس دورہ کے دوران امریکی رہنما کی طرف سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید اقدامات پر زور صرف پاک امریکہ تعلقات میں نئی رکاوٹ کو ظاہر نہیں کرتا‘ بلکہ پاک افغان تعلقات کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جولائی کے آغاز میں اسلام آباد میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان افغانستان میں امن اور مصالحت کی جانب قدم بڑھانے کیلئے پاکستان،امریکہ اور چین کے تعاون سے جو مذاکرات ہوئے تھے اور اْن کی وجہ سے امن کی جو اْمید پیدا ہوگئی تھی،وہ اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے‘ کیونکہ پاکستان کی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے اگلے اجلاس کے انعقاد میں اْس وقت تک مدد فراہم نہیں کرے گا‘ جب تک کہ افغانستان کی موجودہ حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی،الزامات کا سلسلہ اور معاندانہ رویہ ترک نہیں کرتی۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاک افغان تعلقات پر کشیدگی اور باہمی الزام تراشی کے بادل بدستور چھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورتِ حال کا یہ عالم ہے کہ سرحدوں پر ہونے والے تصادم‘ جن میں دونوں طرف سے جانی نقصان بھی ہوا ہے،کی وجہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے ہاں مقیم سفیروں کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا‘ لیکن حالیہ واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کا سب سے تشویشناک اور افسوسناک پہلوافغانستان میں عوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے غصے کے جذبات کا اظہار ہے۔اس سلسلے میں پاکستان میں جو تھوڑی بہت اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ اْن کے مطابق افغانستان خصوصاََ کابل میں رہنے والے پاکستانی باشندوں کا باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے کیونکہ پاکستانیوں کو دیکھ کر عام افغانی باشندے اْن پر فقرے کستے تھے۔
پاکستانی حکومت نے بجا طور پر نہ صرف اس اشتعال انگیز رویے پر احتجاج کیا ہے بلکہ حکومت افغانستان سے اپنے سفارت خانے اور سفارتی عملے کے تحفظ کی ضمانت بھی طلب کی ہے۔پاکستان کے خلاف عام افغانیوں کی طرف سے اس قسم کے افسوسناک سخت رویے کے اظہار کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل گذشتہ برس ایک سرحدی جھڑپ میں ایک افغان فوجی کی پاکستانی فوجیوں کی فائرنگ میں ہلاکت کے سبب نہ صرف کابل بلکہ افغانستان کے دیگر بڑے شہروں میں بھی پاکستان مخالف مظاہرے ہوئے تھے جن میں نہ صرف پاکستان کے خلاف نعرے لگائے گئے بلکہ پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے افغان حکومت پر سخت اقدامات کیلئے زور بھی دیا گیا تھا۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ تیس برس سے زائد عرصہ کے دوران پاکستانی حکومتوں کے دعوے کے مطابق افغانیوں کی مدد کرنے اور تیس لاکھ افغان مہاجرین‘ جن میں سے آدھے سے زیادہ ابھی پاکستان میں ہی موجود ہیں، کو اپنے ہاں پناہ دینے کے باوجود افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا یہ عالم ہے کہ ایک آدھ سرحدی جھڑپ اور کابل میں چند دھماکوں سے افغانستان میں پاکستان مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔افغانستان کا موقف اس صورت ِ حال کے حوالے سے واضح ہے بلکہ چوٹی کے رہنمائوں کے بیانات اس پاکستان مخالف مہم کو تیز کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔لیکن پاکستان کیلئے بھی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان کیلئے اتنی خدمات سرانجام دینے کے بعد بھی آخر ہم کیوں اب تک افغان عوام کے دلوں میں اپنی جگہ نہیں بناسکے؟