پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور اس کی سابق حکومت میں وزیر اطلاعات جناب قمر الزماں کائرہ بھی پارٹی کے ان رہنمائوں میں شامل ہو گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ میثاق جمہوریت یعنی چارٹر آف ڈیمو کریسی(2006ء) پر دستخط کرنے کے بعد ان کی پارٹی نے اپنی روایتی حریف جماعت مسلم لیگ(ن) کے ساتھ جمہوریت کے استحکام اور سیاسی قوتوں کی مضبوطی کے لیے جو پالیسی اپنائی تھی اس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک حالیہ بیان میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے اور کارکن مضطرب ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ انہوں نے ''مصالحت‘‘ کی وہ پالیسی بتائی ہے جسے گزشتہ عرصہ کے دوران پیپلز پارٹی نے اپنائے رکھا تھا۔
جناب قمر زمان کائرہ منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں‘ پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے طالب علم بھی رہ چکے ہیں‘ انہیں خوب معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسیات میں کسی مسئلے یا واقعہ کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاتا اور نہ سمجھا جاتا ہے جس پالیسی کو وہ مصالحت کی پالیسی کہتے ہیں وہ اصل میں سیاسی پارٹیوں میں اس احساس اور جانکاری کی پیداوار تھی کہ پاکستان کو درپیش مسائل اتنے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں کہ انہیں حل کرنا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی پس منظر میں ایک حقیقت سے سب واقف ہیں کہ یہاں سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش مسائل کے حل میں تعاون کرنے کی بجائے آپس میں دست و گریبان رہتی رہی ہیں۔ جمہوریت کی گاڑی کو آگے چلنے دینے کی بجائے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہوئے اسے پٹڑی سے نیچے اتارنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ اس کا فائدہ ان طاقتوں کو ہوا جو ملک کو آئین اور قانون کی بجائے جنگل کے قانون یعنی مارشل لاء کے ذریعے چلانا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا پودا اگر ابھی تک جڑیں نہیں پکڑ سکا اور اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کی تخلیق ایک سیاسی جماعت اور ایک سیاسی رہنما کی قیادت میں ہی عمل میں آئی تھی‘ یہاں سیاسی قوتیں ابھی تک کمزور ہیں اور سیاست دانوں کو ہر برائی‘ ہر مسئلے یا خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کا ایک اہم سبب سیاسی قوتوں میں محاذ آرائی اور آپس میں نفاق رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کی اس کمزوری کا غیر سیاسی قوتوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اگر پاکستان کی آدھی سے زیادہ آزاد سیاسی زندگی جمہوری دور کی بجائے‘ آمرانہ حکومتوں کے تحت گزری ہے‘ تو اس میں جہاں اور بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہاں ان میں سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلش ‘ محاذ آرائی اور چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی کوششوں کا بھی بہت دخل ہے۔جب سیاستدانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کی اپنی کمزوریاں ان کی مشکلات کا سبب ہیں تو ان میں باہمی محاذ آرائی ترک کر کے ملک میں جمہوری سیاسی نظام کے استحکام کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مئی2006ء میں میثاق جمہوریت پر دیگر جمہوریت پسند پارٹیوں کے ہمراہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے دستخط اسی احساس کا نتیجہ تھا ۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی محض جناب محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سوچ اور خواہش کی پیداوار تھی۔ مشرف کے استبدادی دور میں ان دو بڑی سیاسی جماعتوں میں تعاون کی خواہش صرف اعلیٰ قیادت کی سطح پر نہیں پائی جاتی تھی بلکہ دونوں پارٹیوں میں کارکنوں کی سطح پر بھی اس کے لیے زبردست حمایت موجود تھی کیوں کہ مشرف دونوں پارٹیوں کو ملک کے سیاسی منظر نامے سے غائب کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ اس کے لیے وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا پتہ صاف کرنے کے لیے چودھری برادران کو آگے لا رہے تھے۔ موصوف نے سندھ میں پیپلز پارٹی کو بے اثر بنانے کے لیے ایم کیو ایم کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ میثاق جمہوریت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاندار اور اہم موڑ ہے۔ اس کے تحت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جو اس سے قبل ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ آئین کی بالادستی اور سیاسی حکمرانی پر متفق ہوئیں اور انہوں نے آئندہ سیاسی امور میں فوج کی مداخلت اور مارشل لاء کی مخالفت کا اعلان کیا۔
اسے موقع پرستی یا خود غرضی کا نام دینا زیادتی ہو گا۔ کیوں کہ ایک اعلیٰ اور مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتحاد اور تعاون کی نہ تو پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی اور نہ اس قسم کے واقعات صرف پاکستان تک محدود ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس قسم کی مفاہمت اور تعاون کی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش میں عوامی لیگ اور نیشنلسٹ پارٹی کے درمیان نہ صرف نظریاتی بُعد ہے ‘ بلکہ سیاسی میدان میں بھی ایک دوسری کی سخت حریف ہیں۔ لیکن 1990ء میں جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کوختم کرنے اور ملک میں صدارتی کی بجائے پارلیمانی نظام حکومت بحال کرنے میں دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ نیپال میں اگرچہ نیپالی کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ لینیسٹ) ایک دوسرے کی کٹر مخالف ہیں لیکن 1991ء میں تیس سال سے قائم مطلق العنان بادشاہت کو ایک آئینی بادشاہت اور پارلیمانی جمہوری نظام میں تبدیل کرنے کا سہرا ان دونوں جماعتوں کے سر ہے۔ سری لنکا میں سری لنکن فریڈم پارٹی اور یونائیٹڈ نیشنل پارٹی نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن آج کل ان دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ صدر سری سینا کا تعلق فریڈم پارٹی سے ہے جو عام طور پر بائیں بازو کے نظریات کی حامل جماعت سمجھی جاتی ہے جبکہ وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے رہنما ہیں۔ جو کہ دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہے۔
جہاں تک سیاسی مصالحت یا اتفاق رائے پر مبنی سیاست (Consensus politics) کا تعلق ہے جس پر عمل پیرا ہونے کا اعلان سابق صدر آصف علی زرداری نے 2008ء کے انتخابات کے بعد کیا تھا‘ تو اس سلسلے میں جناب کائرہ اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس پالیسی کا‘ جس کے تحت مسلم لیگ ن مرکز میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت کا کچھ عرصہ کے لیے حصہ بنی تھی‘ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک‘ (جن میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھی شامل تھے) خیر مقدم کیا گیا تھا۔ یہ خیر مقدم ان اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے کیا گیا تھا جو پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور عوامی حاکمیت کی خواہش رکھتے ہیں لیکن افسوس اس قابل ستائش اور مستحسن پروگرام پر نہ تو پیپلز پارٹی کار بند رہ سکی اور نہ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے ثابت قدمی دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ مسلم لیگ (ن) چند ماہ بعد ہی مرکزی حکومت سے الگ ہو گئی اور پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے مسلم لیگ (ن) پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔
صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان تعاون‘ مفاہمت اور اتفاق رائے پر مبنی حکمرانی وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا بن چکی ہے۔ بھارت کے 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی اکیلے ہی لوک سبھا کی اتنی نشستیں جیت چکی تھی کہ حکومت سازی کے لیے اسے کسی اور پارٹی کی ضرورت نہیں تھی لیکن نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف دوسری ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس برقرار رکھا بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے مخالف کانگریس پارٹی کا یہ کہہ کر تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی کہ ''آپ کے تعاون کے بغیر میرا مینڈیٹ مکمل نہیں ہے اور یہ کہ بھارت کے عوام کو درپیش مسائل اتنے گمبھیر اور پیچیدہ ہیں کہ اکیلے بی جے پی ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی‘‘ افغانستان میں صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ‘ پر مشتمل قومی اتحاد حکومت قائم ہے۔ حالانکہ صدر غنی پشتون اور عبداللہ تاجک ہیں۔ یہ دونوں رہنما گزشتہ صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔سری لنکا کی مثال پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ نیپال جہاں گزشتہ سات سال سے نئے آئین کی تیاری کا کام معرض التوا میں ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں ملک کو وفاقی اور پارلیمانی آئین دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اگر کچھ حلقوں کی طرف سے میثاق جمہوریت یعنی چارٹر آف ڈیمو کریسی کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مک مکا یا سیاسی مصالحت کی پالیسی کو موقع پرستی اور سیاسی مصلحت کا نام دیا جا رہا ہے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیو ں کہ غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی قوتوں کے درمیان اتحاد یا اتفاق کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ ماضی میں بھی مختلف طریقوں سے انہوں نے اس کوشش کو سبو تاژ کیا ہے اب بھی کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ابھی تک ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اتفاق رائے اور تعاون پر مبنی سیاست کی ساکھ خراب اور اہمیت کم کرنے میں خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا بہت گہرا ہاتھ ہے۔