اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے70ویں سالانہ اجلاس سے جب پاکستان کے وزیراعظم محمد نوازشریف کے خطاب کی باری آئی تو اجلاس میں شریک مندوبین ہی نہیں بلکہ وہ تمام حلقے جو جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کے متمنی ہیں، اْن کے خطاب کو توجہ اور غور سے سْننے کے لئے تیار تھے۔ جنرل اسمبلی سے محمد نوازشریف کے خطاب کی اہمیت ایک اور لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اْن کے نیویارک جانے سے پہلے پاک، بھارت کشیدگی میں خطرناک حدتک اضافہ ہوچکا تھا۔کشیدگی میں یہ اضافہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں ملکوں کی سرحدی فوجوں کے درمیان آئے دن فائرنگ کا تبادلہ تھا جس میں ہلکے ہتھیاروں کے علاوہ درمیانے درجے اور بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال ہو رہا تھا۔ اس سے فریقین کا مالی نقصان کے علاوہ جانی نقصان بھی ہو رہا تھا۔ پاکستان کی حکومت اور عوام میں اس صورت حال کی وجہ سے سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا اور لوگوں کی طرف سے حکومت پر دبائو بڑھ رہا تھا کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی فورم پر اْٹھائے؛ چنانچہ خیال کیا جارہا تھا کہ وزیراعظم محمد نوازشریف جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریںگے تو وہ بھارت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے نہ صرف لائن آف کنڑول پر بھارت کی طرف جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروائیں گے بلکہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے کو بھر پور انداز میں پیش کریں گے۔
لیکن وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بھارت کے بارے میں بڑا متوازن، معتدل اور مثبت موقف اختیار کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کشمیر پر اپنے ملک کے موقف کو واضح اور غیر مبہم انداز میں پیش کرتے ہوئے ایک ایسا چار نکاتی فارمولا پیش کیا جو نہ صرف پاکستان کے عوام اور کشمیریوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ انصاف اور بین الاقوامی قانون کے تمام تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہے۔ ان چار نکات میں پہلا نکتہ اس تجویز پر مشتمل ہے کہ پاکستان اور بھارت 2003ء کے معاہدے کے تحت کشمیر میں لائن آف کنڑول پر جنگ بندی کو مستحکم کریں اور کسی قسم کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے ایک میکانزم قائم کریں جس میں کشمیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے متعین آبزور گروپ کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی اور شرکت کا موقع مل سکے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکی کے خلاف ایک واضح اعلان کیا جائے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ پورے کشمیرکو ایک غیر فوجی علاقہ قرار دے کر مسلح افواج کو وادی سے نکال دیا جائے۔ اور چوتھے نکتے کا تعلق سیاچن گلیشئر سے ہے جہاں بھارت کی طرف سے کھلی جارحیت کے ارتکاب کی وجہ سے1982ء سے دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میںجو دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر لڑی جارہی ہے، دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان ہوچکا ہے اور نقصان کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ وزیر اعظم نے تجویز پیش کی کہ پاکستان اوربھارت دونوں غیر مشروط طور پر سیاچن گلیشئر سے فوجیں نکال لیں۔
وزیراعظم کے اس چارنکاتی فارمولے کا پاکستان اور کشمیر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ میں کشمیر کے بارے میں پاکستانی عوام اور کشمیریوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے پرانہیں خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن دوسری طرف توقع کے عین مطابق بھارت نے اسی فارمولے کو مسترد کردیا اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کی اصل وجہ بھارت کے خلاف دہشت گردی ہے جسے پاکستان روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے جہاں تک وزیراعظم کی طرف سے پیش کردہ نکات پر عمل درآمد کا تعلق ہے بھارتی موقف کے سامنے آنے کے بعد اْن پر عمل درآمد خارج ازامکان ہے۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وزیراعظم نے پاک، بھارت کشیدگی کم کرنے اور دونوں ملکوں میں کشمیر اور سیاچن جیسے مسائل کے حل کے لئے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ رائیگاں جائیں گی یا بین الاقوامی برادری اْن کانوٹس نہیں لے گی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ تجاویز پیش کرکے پاکستان نے بھارت کو کشمیر پر اپنے موقف میں دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ یہ چاروں تجاویز مسلمہ اخلاقی ضابطوں اور مروجہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں کوئی ایسی بات شامل نہیں جو نئی ہویا اقوام متحدہ کے چارٹر سے متصادم ہو، بلکہ ان میں ایسے موقف کا اعادہ کیا گیا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی وقت میں پاکستان اور بھارت دونوں اپنی رضا مندی کا اظہار کر چکے ہیں۔
مثلًا جہاں تک لائن آف کنڑول پر2003ئکے معاہدے کے تحت جنگ بندی کو ایک باقاعدہ اور مستقل شکل دینے کی تجویز ہے، بھارت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بھارت کی طرف سے مسلسل یہ موقف ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں پاکستان کی طرف سے ہو رہی ہیں اور بھارت کی جانب سے صرف جوابی کارروائی کی جاتی ہے۔ الزام اور رد ِالزام کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا خاتمہ کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد اور اسے روکنے کے لئے ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جو نہ صرف موثر ہو بلکہ اسے پاکستان اور بھارت دونوں کا اعتماد حاصل ہو۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے بھی نیویارک میں وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کے دوران میں اسی قسم کے ایک میکانزم کے قیام کی حمایت کی ہے ۔ جہاں تک کشمیر سے فوجوں کے انخلاء کے بعد اسے ایک غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا تعلق ہے، یہ تجویز سب سے پہلے اقوامِ متحدہ کی طرف سے 1948ء میں سلامتی کونسل کی کشمیر پر قراردادوں میں شامل کی گئی تھی اور اس پر پاکستان اور بھارت دونوں نے اتفاق کیا تھا۔ 2004ء میں سابق جنرل مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا، اْس میں بھی کشمیر کو غیر فوجی (De-Militarizad) علاقہ قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس لیے وزیراعظم محمد نوازشریف نے یہ تجویز پیش کر کے کوئی نئی بات نہیں کہی۔
اس طرح پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال یا استعمال کی دھمکی سے بھارت کی طرف سے اجتناب کا واضح اعلان اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں میں جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور چھوٹی سی غلط فہمی روایتی تصادم کو اٹیمی جنگ میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کے اعلان سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا مضبوط ہوگی جو باہمی تنازعات کو حل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔سیاچن سے دونوں ملکوں کی افواج کے غیر مشروط انخلا کی تجویز انتہائی معقول اور مثبت ہے۔ بھارتی حکومت کو یادہوگا کہ اس قسم کی تجویز وزیراعظم محمد نوازشریف پہلے بھی پیش کر چکے ہیں، بلکہ اْنہوں نے پیش کش کی تھی کہ دونوں ملکوں میں امن اور باہمی اعتماد کے فروغ کی خاطر پاکستان کو سیاچن سے یک طرفہ طور پر فوجیں واپس بلا لینی چاہئیں۔ لیکن بھارت کی طرف سے کسی مثبت ردِعمل کا اظہار نہ کیا گیا، لیکن جیساکہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے نیویارک میں پریس کانفرنس میں کہا، اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے امن کی خاطر آگے بڑھ سکتے ہیں اور باہمی تنازعات کو ایک ایسے فریم ورک میںحل کرسکتے ہیں جو وزیراعظم محمد نوازشریف کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔