"DRA" (space) message & send to 7575

اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پر فلسطین کا جھنڈا

گزشتہ دنوں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر عالمی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر پر دیگر رْکن ممالک کے جھنڈوں کے ساتھ فلسطین کا جھنڈا بھی لہرا دیا گیا اگرچہ اس واقعہ کی اہمیت محض علامتی( Symbolic)ہے اور اس سے نہ تو ریاست فلسطین کی ‘جسے ''فلسطینی اتھارٹی‘‘کہتے ہیں، حیثیت میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی اس سے مسئلہ فلسطین کے دیرپا اور منصفانہ حل کی طرف کوئی اہم پیش قدمی کی اْمید ہے؛ تاہم جب ہم فلسطینی عوام کی طویل جدوجہد اور خصوصاََ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کے بدلتے ہوئے موقف کی دلچسپ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے حقائق سامنے آتے ہیںجن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل اور اْس کی پْشت پناہی کرنے والے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے کے باوجود مسئلہ فلسطین اب بھی زندہ ہے اور اْس وقت تک زندہ رہے گا جب تک دیگر اقوام کی طرح فلسطینی عوام بھی اپنے بنیادی حقوق حاصل نہیں کر لیتے۔ان حقوق میں فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی اور ایک علیحدہ آزاداور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے۔
اقوام متحدہ نے گذشتہ تقریباََ 4دہائیوں کے دوران فلسطینیوں کی حمایت میں متعدد اقدام کیے ہیں۔ ان میں 1970ء کی دہائی میں تنظیم آزادی فلسطین پی ایل او کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں آبزرور کی حیثیت سے شرکت کی اجازت دینا،اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست(Racist)قرار دینا اور 1948ء میں تقسیم فلسطین کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کا واپس اپنے گھروں کو لوٹ جانے کے حق کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے متعدد قراردادوں کے ذریعے اسرائیل سے مقبوضہ علاقے جن میں بیت المقدس بھی شامل ہے،خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاچکا ہے۔ان قرار دادوں میں سب سے اہم نومبر1967ء میں منظور کی جانے والی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں فلسطینیوں اور عربوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں اسرائیل سے اْن تمام علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ جن پر اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ اگرچہ اسرائیل نے یہ قرارداد مسترد کر دی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اسرائیل جون1967ء سے قبل کی سرحدوں پر کبھی واپس نہیں جائے گا تاہم مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل تنازع اور مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے اب بھی یہ قرارداد ایک اہم فریم ورک کی حیثیت رکھتی ہے۔کیونکہ اس میں ''زمین برائے امن ‘‘کا اصول پیش کیا گیا تھا۔اس قرارداد کو نہ صرف عرب ممالک بلکہ مغربی حلقوں خصوصاََ یورپی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔مشرق وسطیٰ کے اس دیرینہ اور انتہائی پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے اب تک جو بھی تجاویز پیش کی جاچکی ہیں اْن کی بنیاد یہی قرار داد ہے۔2002ء میں سعودی عرب کے فرمانروا مرحوم شاہ خالد نے اسرائیل اور فلسطین کی ساتھ ساتھ دو آزاد ریاستوں کے قیام کی جو تجویز پیش کی گئی تھی،اْس کی بنیاد بھی اسی قرار داد پر رکھی گئی تھی۔
اگرچہ مشرقِ وسطیٰ میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگوں کے باوجود مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کی طرف کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم میں اضافہ ہوا ہے ۔تاہم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے جو قراردادیں منظور کی جاتی رہی ہیں اور اسرائیل سے جو مطالبات کیے جاتے رہے ہیں،اْنہوں نے نہ صرف مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا ہے بلکہ ان کی وجہ سے عالمی برادری میں فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بہتر آگاہی اور حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی موجودہ مشکلات اور مسائل کا ذمہ دار بھی اقوام متحدہ کا ادارہ ہے کیونکہ اسی جنرل اسمبلی نے نومبر 1947ء میں بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کے دو ٹکڑے کیے تھے اور ایک ٹکڑے پر اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔حالانکہ فلسطین میں اْس وقت بھی یہودی آبادی اقلیت میں تھی اور فلسطین تیرہ سو برس سے عالم عرب کا حصہ چلا آرہا تھا۔لیکن اْس وقت کی بڑی طاقتوں نے‘ جن میں امریکہ،روس،برطانیہ اور فرانس شامل تھے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیمِ فلسطین کے حق میں دوتہائی ممبران کی حمایت حاصل کرکے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے حق میں جنرل اسمبلی کے دوتہائی ممبران کی حمایت کیسے حاصل کی گئی ،بین الاقوامی سیاست میں جوڑ توڑ،دبائو،دھمکیوں اور لالچ کے استعمال کی یہ ایک دلخراش داستان ہے جس میں سب سے نمایاں کردار امریکہ نے ادا کیا تھا۔اْس وقت یعنی 1947ء میں اقوام متحدہ کے ممبران کی اکثریت کا تعلق یورپ اور لاطینی امریکہ سے تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ عسکری اور معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ طاقت ور ملک بن کر اْبھرا تھا۔امریکہ نے اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوتہائی ممبران کو اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا۔پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ نے ‘ جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے فلسطینی مسئلے پر عرب موقف کی حمایت کرنے کیلئے خصوصی طور پر اقوام متحدہ بھیجا تھا،اپنی کتاب ''تحدیث نعمت‘‘ میں اس شرمناک جوڑ توڑ اور مذموم ریشہ دوانیوں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
27نومبر 1947ء کو منظور کی جانے والی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے نتیجے میں مئی1948ء میں اسرائیلی ریاست قائم ہوگئی لیکن اس سے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور نفرت کی ایسی فضا قائم ہوئی جو ابھی تک قائم ہے۔عربوں کی طرف سے تقسیم فلسطین کی سخت مخالفت کی گئی اور جب اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔اس کے بعد 1956،1967اور1973ء میں تین اور جنگیں ہوئیں۔ان سب جنگوں کی وجہ مسئلہ فلسطین ہے جیسے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد نے1947ء میں پیدا کیا تھا۔اور اس مسئلے کی وجہ سے سب سے زیادہ فلسطینی عوام متاثر ہوئے۔اقوام متحدہ کے اس فیصلے کے نتائج فلسطینی اب تک بْھگت رہے ہیں۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ(1948-49ء) میں عددی برتری کے باوجود عرب فوجوں کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اْنہیں کئی عرب علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو اْن علاقوں سے نقل مکانی کرنی پڑی جنہیں اقوام متحدہ نے اسرائیلی ریاست میں شامل کیا تھا۔فلسطینی اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے لیکن اسرائیل نے اْنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا اور اس کیلئے اسرائیل نے تمام حربے استعمال کیے۔اس میں فلسطینی باشندوں پر حملے اور اْن کے گھروں کو مسمار کرنے کے اقدامات شامل تھے۔ان لاکھوں فلسطینی باشندوں نے جن میں مرد،عورت ،بچے اور بوڑھے شامل تھے،بھاگ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی اْردن،شام،لبنان اورمصر میں پناہ لی۔ایک عرصہ تک یہ لاکھوں باشندے کس مپرسی کے عالم میں کہیں کھلے آسمان کے نیچے کہیں سکولوں اور ویران عمارتوں اور کہیں غاروں میں زندگی بسر کرتے رہے۔چونکہ ہمسایہ عرب ممالک جہاں ان فلسطینی مہاجرین نے پناہ لے رکھی تھی،خود غریب تھے،اس لیے وہ ان لاکھوں فلسطینی باشندوں کو خوراک،صحت اور تعلیم جیسی ضروریات تسلی بخش مقدار میں مہیا نہیں کر سکتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی جانب سے ان مہاجرین کو جو نقد اور جنس کی صورت میں امداد دی جاتی تھی،وہ برائے نام تھی۔بین الاقوامی برادری خصوصاََ یورپی اقوام ان کی امداد کیلئے کوئی قابلِ ذکر قدم اس لیے نہیں اْٹھا سکتے تھے،کیونکہ یورپ خود دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میںمہاجرین اور بے گھر افراد کے مسائل سے دوچار تھے۔
یہ لاکھوں فلسطینی مہاجرین کن حالات میں اپنے کیمپوں میں رہتے تھے،ان کا حال اقوام متحدہ کی بہت سی رپورٹوں میں ملتا ہے۔
اسرائیل کا خیال تھا کہ اْس نے اپنے ہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کر کے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے۔اْس کے خیال میں فلسطینیوں کے نام سے دنیا میں کوئی قوم باقی نہیں رہے گی۔کیونکہ اْس کے ظلم و ستم کی وجہ سے فلسطینی بے گھر ہوکر یا تو ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے تھے یادنیا کے مختلف حصوں میں بکھر چکے تھے۔اسرائیل کا خیال تھا کہ یہ فلسطینی ہمسایہ عرب ممالک کی ہم مذہب اور ہم نسل آبادیوں میں ضم ہوکر اور دنیا کے مختلف ممالک میں تتر بتر ہو کر اپنی قومی شناخت کھو دیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسرائیل کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد سے نہ صرف اپنی علیحدہ قومی شناخت کو برقرار رکھا بلکہ بین الاقوامی برادری سے بھی منوایا۔اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پر دنیا کی دیگر اقوام کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی پرچم کا لہرانا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں