وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران پاکستان اور امریکی حکام اور خود وزیر اعظم نواز شریف اور صدر امریکہ بارک حسین اوباما کے درمیان دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ اور وزیر اعظم کی پریس کانفرنس سے جو بات عیاں ہوئی‘ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں طرف باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے؛ تاہم بعض علاقائی مسائل کے دن بدن گمبھیر ہونے کی وجہ سے یہ تعلقات گہرے بادلوں کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ دو مسائل زیادہ اہم ہیں۔ ایک: افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور امریکہ کی طرف سے پاکستان پر طالبان کو بات چیت کی میز پر لانے پر زور۔ دوسرا: پاک بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی جس کی وجہ سے نہ صرف جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ افغانستان میں صدر اوباما نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے ختم ہونے سے پہلے امن اور اس کے نتیجے میں مکمل امریکی انخلا کے جو ٹارگٹ مقرر کر رکھے ہیں‘ وہ کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ جن دیگر اہم امریکی حکام سے پاکستانی وفد کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہوئیں‘ اْن میں نائب صدر جو بائیڈن، سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری اور سیکرٹری دفاع ایشٹن کارٹر شامل ہیں۔ امریکہ کی خارجہ‘ اور خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تشکیل اور عمل درآمد میں ان تینوں اہم امریکی رہنمائوں کا بڑا ہاتھ ہے‘ اور یہ تینوں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں‘ بلکہ دوطرفہ بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ مثلاً قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کے ''ضرب عضب‘‘ آپریشن کی ان تینوں امریکی رہنمائوں نے تعریف کی اور پاکستان کی کوششوں کو سراہا؛ تاہم حالیہ ملاقاتوں کے بعد دیے گئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی طرف سے زیادہ موثر اقدام کا خواہش مند ہے‘ اور اس کا برملا اظہار نواز اوباما مشترکہ اعلامیہ میں کر دیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں افغانستان میں امن اور صلح کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا گیا اور اس کیلئے اس مسئلے کے تمام فریقوں سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے‘ کیونکہ امریکہ کو یقین ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان فیصلہ کْن کردار ادا کر سکتا ہے۔ چند ماہ پیشتر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا جو پہلا دور ہوا، وہ پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں دوبارہ کوشش کرے اور طالبان کو ایک دفعہ پھر افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید کی میز پر لا بٹھائے‘ لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث پاکستان کیلئے ایسا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے واضح کر دیا گیا کہ بات چیت کے دوبارہ انعقاد کا تمام تر انحصار کابل میں افغان حکومت کے رویے پر ہے۔ اگر وہ مذاکرات کے انعقاد میں پاکستانی مدد کی خواہش مند ہے تو پاکستان کے بارے میں اْسے اپنے معاندانہ رویے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
دوسری طرف امریکہ کی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششوں کے باوجود طالبان مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتے، تو پاکستان میں مبینہ طور پر ان کے موجودہ محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کو کارروائی کرنی چاہیے۔ اس قسم کا مطالبہ افغان حکومت کی طرف سے پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ افغان نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی پاکستان کے ایک دورے کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہ ہوں تو پاکستان کو اْنہیں مال اور دیگر امداد ملنے والے راستے منقطع کر دینے چاہئیں‘ لیکن امریکہ تو اس سلسلے میں طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی طرف سے فوجی اقدام کا مطالبہ کر رہا ہے‘ جس پر پاکستان آمادہ نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے یہ بیان کہ 'طالبان کے ساتھ مذاکرات اور اْن کے خلاف فوجی اقدام ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘ اسی صورت حال کو واضح کرتا ہے۔
یہ صورت حال اس لحاظ سے پاکستان کیلئے ایک اہم چیلنج ہے کہ امریکہ کے علاوہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک مثلا ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی افغانستان میں طالبان کے دوبارہ قبضہ کو اپنی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ اسی لیے امریکہ نے اگلے سال افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا جو منصوبہ بنایا تھا اْسے موخر کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح تاجکستان نے روس کی مدد سے افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر دفاعی انتظامات مضبوط بنانے کیلئے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی تیزی سے کم ہو رہی ہے، بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں داعش کے خلاف دونوں ملکوں میں بالواسطہ تعاون موجود ہے۔ اس تعاون کا دائرہ افغانستان تک بڑھایا جا سکتا ہے‘ بلکہ امریکہ کے بعض بااثر حلقوں میں افغانستان کے مسئلے پر امریکہ اور ایران کے تعاون کی نہ صرف حمایت کی جا رہی ہے بلکہ اس کے قوی اور فوری امکان کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے بعض غیر سرکاری حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ماضی کے ریکارڈ کے پیش نظر افغانستان میں پاکستان کے کردار پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اب امریکہ کو ایران کے ساتھ ملکر افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔
امریکہ کیلئے جنوبی ایشیا میں دوسرا بڑا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ دونوں ملکوں میں 2004ء سے امن مذاکرات کا جو عمل جاری تھا‘ وہ تعطل کا شکار ہے‘ بلکہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر آئے دن فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے جِس کے نتیجے میں دونوں طرف بھاری جانی اور مالی نقصان ہُوا ہے۔ امریکہ کے علاوہ عالمی برادری کے دیگر رُکن ممالک بھی اِس صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں‘ لیکن امریکہ کیلئے یہ صورت حال خصوصی طور پر پریشانی کا باعث ہے۔ ایک یہ کہ اِس وقت جنوبی ایشیا میں امریکہ کی دِلچسپی اور خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تعلقات اقتصادی شعبے میں بھی ہیں اور دفاعی شعبے میں بھی، اور ان کا مقصد جہاں بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو وسعت دے کر امریکی معیشت کو فائدہ پہنچانا ہے‘ وہاں ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے بھارت کا تعاون حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ امریکہ نے اس قسم کا ایک اتحاد آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ قائم کر رکھا ہے۔ اب وہ بھارت کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے‘ تو امریکہ کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو یقین ہے کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک وجہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان محاذ آرائی ہے۔ امریکہ کے نزدیک پاکستان اور بھارت افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف ایک پراکسی وار میں اْلجھے ہوئے ہیں‘ اور جب تک دونوں ملکوں میں کشیدگی کم نہیں ہوتی اور محاذ آرائی کی جگہ تعاون کی فضا قائم نہیں ہوتی، دونوں ملک افغانستان کو ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف اکھاڑے کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام متنازعہ مسائل‘ جن میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے کو پُرامن اور دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں دیگرمسائل سمیت کشمیر کا ذکر اور اْس کے حل پر امریکہ کی طرف سے زور پاکستان کیلئے ایک اہم سفارتی کامیابی ہے‘ کیونکہ پاکستان کا موقف بھی یہی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہے‘ لیکن ان مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہونا چاہیے کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی نمایاں پیش قدمی نہیں ہوتی، پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے؛ تاہم موجودہ صورت حال میں پاکستان کو ایک اہم چیلنج بھی درپیش ہے۔ امریکہ کی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر بھارت کو پاکستان سے جو شکایتیں ہیں وہ دور کی جائیں۔ خاص طور پر 2008ء میں ممبئی حملے میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘ اور اس کے ساتھ دیگر جہادی تنظیموں اور ایسے گروپ جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے،کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سال جنوری میں جب صدر اوباما نے بھارت کا دورہ کیا تھا‘ تو اْنہوں نے بھی بھارت کو خوش کرنے کیلئے ممبئی حملے میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح حال ہی میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری اور بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا‘ اْس میں بھی لشکر طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کو اس کے خلاف کارروائی کیلئے کہا گیا تھا۔
وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف امریکہ اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں خصوصاً تعلیم، صحت، زراعت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون میں اضافہ ہوگا، وہاں پاکستان کو آنے والے دنوں میں اہم چیلنجوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان چیلنجوں کا تعلق افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اور بھارت کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات سے ہے۔ پاکستان کو ان دونوں محاذوں پر اپنی روایتی پالیسی سے ہٹ کر اہم فیصلے کرنا پڑیں گے‘ کیونکہ ان دونوں مسائل کا تعلق نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی اور بنیادی مفادات سے ہے بلکہ یہ بین الاقوامی برادری کیلئے بھی انتہائی تشویش کے حامل ہیں۔