چند دن قبل امریکی صدر بارک اوباما نے افغانستان کے بارے میں ایک بیان جاری کیا جو افغانستان ہی نہیں، جنوبی اور مغربی ایشیا میں بھی امریکہ کی آئندہ پالیسی کے لیے اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر اوباما کا یہ بیان افغانستان میں افغان سرکاری فوجوں کے مقابلے میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں خصوصاً شمالی حصے میں واقع صوبائی دارالحکومت قندوز پر طالبان کے قبضہ کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ افغان سکیورٹی فورسز قندوزکو طالبان کے قبضہ سے چھڑانے میں کامیاب ہوچکی ہیں اور طالبان اْس محاذ سے پیچھے ہٹ چکے ہیں؛ تاہم اس سے اْن کی طاقت اور افغانستان کی فوجوں کی کمزوری عیاں ہوتی ہے۔ افغانستان میں اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر صدر اوباما نے جو طویل بیان جاری کیا اور جس میں اْنہوں نے اعلان کیا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کا دوبارہ اڈہ نہیں بننے دیاجائے گا، اْس کے مطابق:
1۔ اگلے سال تک افغانستان سے امریکی فوجوں کو مکمل طور پر نکالنے کا جو شیڈول خود صدر اوباما نے تقریباًساڑھے چھ سال قبل دیا تھا،اْسے موخر کر دیا گیاہے۔ اب9800جوانوں اور افسروں پر مشتمل امریکی فوجی دستہ بدستور افغانستان میں موجود رہے گا؛ البتہ اس کے مشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی یعنی امریکی فوجیوں کے فرائض میں صرف افغانستان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسدادِ دہشت گردی میں امداد فراہم کرنا شامل ہوگا۔
2۔ چودہ برس تک افغانستان میں فوجی کارروائیاں کرنے کے بعد بھی اْنہوں نے اعتراف کیا کہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور اْنہیں جتنا ہونا چاہیے وہ اتنا مضبوط نہیں ہیں۔ ان کے مقابلے میں طالبان یکے بعد دیگرے خصوصاً دیہی علاقوں میں متواترکامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور قندوز پر قبضہ کرنے کے بعد اْنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اْن کے حملوں سے افغانستان کا کوئی شہر جن میں دارالحکومت کابل بھی شامل ہے، محفوظ نہیں۔
3۔ امریکی صدر کے مطابق افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور خصوصاًََ افغان سکیورٹی فورسز کے مقابلے میں حیران کْن کامیابیاں دراصل پاکستان کی طرف سے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی آپریشن کا نتیجہ ہیںکیونکہ اس فوجی آپریشن کی وجہ سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو بھاگ کر افغانستان میں داخل ہوگئے ہیں اور وہ طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ اس سے افغانستان کے بعض اہم حصوں میں صورت حال انتہائی نازک چکی ہے بلکہ مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان حالات کے پیش نظر صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ تین اہم فیصلوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ اوّل، 9800 جوانوں اور افسروں پر مشتمل امریکی فوجی دستہ 2016ء تک افغانستان میں موجود رہے گا۔ دوئم، اس کے بعد چند ایک مقامات پر 5500 امریکی فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی امداد کے لیے موجود رہیںگے۔ سوئم، ان دونوں اقدامات پر بہتر عمل درآمد کے لیے امریکہ اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں سے مل کر کا م کرے گا۔ یاد رہے کہ صدر اوباما نے جنوری2009ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جب 2014ء تک افغانستان سے بتدریج امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کا اعلان کیا تھا،افغانستان میں لڑنے والی افواج کے کمانڈروں نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی بلکہ ایک امریکی جرنیل کو برملا اختلاف ظاہر کرنے پر اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے، لیکن 1,30,000امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود جب صدر اوباما اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان کا مسئلہ فوجی ذرائع سے حل نہیں کیا جاسکتا تو اْنہوں نے دسمبر 2009ء میں ایک پالیسی بیان جاری کیا جس کے تحت امریکہ نے فیصلہ کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں گے، 2014 ء تک امریکی افواج کو مرحلہ وار افغانستان سے نکال لیا جائے گا اور امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں کسی حربی کارروائی میں حصہ لینے کی بجائے صرف افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور بوقتِ ضرورت انسدادِ دہشت گردی خصوصاً القاعدہ کے باقی ماندہ عناصر کو ختم کرنے میں افغان افواج کا ہاتھ بٹائیں گی۔ لیکن 15اکتوبر کا اعلان امریکہ کی سابقہ پالیسی کی نفی کرتا ہے بلکہ اسے افغانستان میں امریکی پالیسی میں یوٹرن کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
مبصرین اسے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لیے بھی اہم مضمرات کا حامل فیصلہ تصور کرتے ہیںکیونکہ افغانستان سے امریکی افواج کی مکمل واپسی رک جانے کے بعد ملک میں جنگ کے شعلے اور بھی بھڑکیںگے۔ اس آگ کی حدت پاکستان میں بھی محسوس کی جائے گی۔ اس سے افغانستان میں امن اور صلح کے عمل کی بحالی کے جن امکانات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ فی الحال معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بغیر کسی قسم کی بات چیت میں حصہ نہیں لیںگے۔ صدر اوباما کے اس اعلان کے بعد نہ صرف افغان سکیورٹی فورسز بلکہ امریکی فوجی اڈوں پر بھی طالبان کے حملے تیز ہوجائیں گے۔ اس سے نہ صرف فوجیوں بلکہ شہریوں کا بھی جانی نقصان ہوگا۔ اگرچہ سابقہ برسوں کے مقابلے میں امریکہ کا جانی نقصان کم ہو رہا ہے کیونکہ بیشتر امریکی افواج افغانستان سے نکل چکی ہیں تاہم اب بھی امریکی جوان طالبان کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سالِ رواں کے دوران اب تک 25 امریکی جوان طالبان کے حملوں میںہلاک ہوچکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ غیر ملکی فوجی جوانوں اور شہریوں سمیت افغانستان میں مزید جانی نقصان ہوگا، اس لیے صدر اوباما نے اپنے بیان میں افغانستان میں موجود امریکی جوانوں اور افسروں کی قربانیوں کی تعریف کرنے کے ساتھ اْن کے حوصلوں کو بھی بلند کرنے کے لیے بھی کلمات شامل کیے۔
اگرچہ صدر اوباما نے افغانستان کی صورتِ حال اور امریکی پالیسی میں شفٹ کو مایوس کْن قرار دینے سے انکار کیا ہے تاہم اْن کے بیان سے افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال اور صدر اشرف غنی کی حکومت کی ناکامی پر امریکہ کی تشویش صاف نظر آتی ہے۔ لیکن افسوس، صدر اوباما نے اپنے بیان میں اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے اصل اسباب کی نشاندہی نہیں کی۔ دنیا بھر کا میڈیا بلکہ خود امریکہ کے اندر غیر جانبدار اور آزاد رائے رکھنے والے تبصرہ نگار متفق ہیں کہ طالبان کی کامیابی کی اصل وجوہ افغانستان میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی، نااہلیت اور صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے حامیوں میں عدم اعتماد اور چپقلش ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے صدر اوباما کی انتظامیہ اس رائے سے متاثر نظر آتی ہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کا سب سے بڑا سبب پاکستان میں اْن کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے امریکہ کے چند تھنک ٹینک اور سٹریٹیجک تھنکرز جن میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اورسی این این پر مشہور پروگرام کے اینکر پرسن فرید زکریا بھی شامل ہیں،کی طرف سے تواتر کے ساتھ صدراوباما کو باور کروایا جا رہا ہے کہ طالبان کے پیچھے اصل قوت پاکستان میں اْن کے محفوظ ٹھکانے ہیں، جہاں اْنہوں نے تربیتی
کیمپ قائم رکھے ہیں اور جہاں سے اْنہیں تازہ کمک بھی حاصل ہوتی ہے اور جب تک اْنہیں ختم نہیں کیاجاتا افغانستان میں لڑنے والے طالبان کی کمر نہیں توڑی جاسکتی۔ بعض حلقوں کی طرف سے ان محفوظ ٹھکانوں کے خلاف مشترکہ امریکی اور افغان فوجی کارروائی کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی جن وجوہ کی بنا پر امریکہ سے ناراض تھے،اْن میں یہ شکایت بھی شامل تھی کہ امریکہ نے طالبان کی حمایت کرنے پر پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی۔ اگرچہ صدر اوباما کے بیان سے اس موقف کی تائید نہیں جھلکتی کہ افغانستان میں طالبان تحریک کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان میں اْن کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے تاہم اْنہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ یہ ''محفوظ ٹھکانے ختم ہونے چاہئیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر اوباما پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ افغانستان میں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے اْن کا خاتمہ ضروری سمجھتے ہیں اور غالباً اسی لیے اْنہوں نے وزیراعظم محمد نوازشریف کے ایک ہفتہ بعد ہونے والے امریکہ کے دورے کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تمام فریقین (جن میں پاکستان بھی شامل ہے) پر زور دیں گے کہ وہ امن اور صلح کے عمل کو دوبارہ شروع کریں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور اس کے پیش نظر امریکی افواج کے انخلا کا موخر ہونا پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان سے نہ صر ف امریکہ بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کی توقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اْس کی افواج افغانستان سے واپس وطن آجائیں، لیکن صدر اوباما نے اپنے بیان میں واضح کردیا ہے کہ اس کا واحد راستہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان سیاسی تصفیہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اسے ممکن بنانے میں اپنا کردار کس حد تک اورکیسے اداکرتا ہے۔