13 نومبر کی شبفرانس کے دارالحکومت پیرس میں دہشت گردی کی ایک ایسی ہولناک اور وحشیانہ کارروائی کا ارتکاب کیا گیا کہ9/11کے حملوں کے بعد مغربی ممالک بلکہ پوری دنیا میں شاید ہی ایسا دل ہلا دینے والاواقعہ رونما ہوا ہو۔فرانس کی حکومت اور میڈیا نے اسے ملک کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔دنیا کے تمام ممالک اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔فرانس کے اتحادی ممالک، جن میں امریکہ،برطانیہ اور جرمنی بھی شامل ہیں،نے فرانس کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر اولیندکو دہشت گردی کے خلاف مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
فرانس میں اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔لیکن13نومبر کی شام کو ہونے والی دہشت گردی اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے کہ یہ کسی اشتعال انگیزی کے جواب میں پیش نہیں آیا۔ بدقسمتی سے ایک ایسے وقت پہ رْونما ہوا، جب پورے یورپ میں شام کی خانہ جنگی سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو یورپی ممالک میں پناہ دینے کے حق میں فضا ہموار ہورہی تھی،یعنی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر متعدد یورپی ممالک، جن میں فرانس بھی شامل ہے،دائیں بازو اور بعض نسل پرست گروپوں کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود اپنے ہاں ان تارکینِ وطن کو پناہ دینے پر تیار ہوگئے تھے،لیکن پیرس میں دہشت گردی کے اس واقعہ کے بعد اس کے آئندہ امکانات پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔دہشت گردی کی یہ واردات اتنی اچانک،منظم اور وحشیانہ تھی کہ اس نے اہلِ فرانس کے دل ہی نہیں ہلادیے بلکہ پورے یورپ میں جہاں پہلے ہی ایشیا ئی اور افریقی ممالک سے لاکھوں تارکین وطن عرصہ دراز سے رہ رہے ہیں،خوف اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔آٹھ دہشت گرد، جنہوں نے خود کْش جیکٹیں پہن رکھی تھیں،تین گھنٹوں تک پیرس کے تقریباً چھ مقامات پر لوگوں کو گولیوں سے بھونتے رہے۔ریسٹوران،بار اور پبلک اجتماع کے دیگر مقامات ان حملہ آوروں کا خاص نشانہ تھے۔ ایک سپورٹس سٹیڈیم، جہاں فرانس اور جرمن کی ٹیموں کے درمیان فٹ بال کا میچ ہورہا تھا اور جسے دیکھنے کیلئے صدر اولیند اپنی کا بینہ کے ہمراہ موجود تھے،میں بھی گھس کر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔تاہم شہر میں ایک تھیٹر ہال جہاں میوزک کنسرٹ ہورہا تھا اور سینکڑوں لوگ اس سے لطف اندوز ہورہے تھے،تباہی سے نہ بچ سکا۔دہشت گردوں نے اس میں داخل ہوکر حاضرین کو خوف زدہ کرنے کیلئے پہلے تو اندھا دھند فائرنگ کی اور پھر ان کو یرغمال بنا کر ایک ایک کر کے قتل کرنا شروع کردیا۔ جب سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو دہشت گردوں نے یرغمالیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور اْنہیں بے دریغ قتل کرنا شروع کردیا۔ صرف اس ایک ہا ل میں 83افراد کو ہلاک کیا گیا۔
اگرچہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ ہماری جنگ اسلام نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ہے اور فرانس کے صدر نے بھی اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کا اْن تارکینِ وطن سے کوئی تعلق نہیں جو شام کی خانہ جنگی اور ''داعش‘‘کے ظلم و ستم سے بھاگ کر یورپ میں پناہ حاصل کررہے ہیں؛تاہم اس مسئلے پر یورپی ممالک جس نرمی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کر رہے تھے،اْس کا جاری رہنا مشکل نظر آرہا ہے۔یورپ کے متعدد ایسے ممالک جنہیں اپنے ہاں ایسے تارکینِ وطن کو پناہ دینے پر پہلے ہی تحفظات تھے،اب کھلم کھلا تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔اس اطلاع کے بعد کہ کنسرٹ ہال میں فائرنگ کرنے والے ایک ہلاک شدہ دہشت گرد کی لاش کے قریب سے ملنے والے پاسپورٹ کے مطابق حملہ آور کا تعلق شام سے تھا اور وہ حال ہی میں یونان کے راستے دیگر تارکینِ وطن کے ساتھ یورپ میں داخل ہوا تھا،اْن عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوجائیں گے جو تارکینِ وطن کی موجودہ لہر کے آگے ہی بند نہیں باندھنا چاہتے بلکہ یورپ میں کئی دہائیوں سے مقیم تارکین وطن کو بھی نفرت اور تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔یورپ کے کئی ممالک مثلاً برطانیہ،فرانس،جرمنی،ڈنمارک،ناروے اور بیلجیئم میں ایسے کئی فاشسٹ اورنسل پرست گروپ سرگرم عمل ہیں جو اپنے ممالک میں تارکینِ وطن کی موجودگی کو اپنی معیشت پر بوجھ اور ثقافت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ان تارکینِ وطن میں ایک بہت بڑی تعداد شمالی افریقہ،مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے۔یورپ میں سفید نسل کے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کیلئے مسلمان تارکینِ وطن کی آبادی میں اضافے کی شرح کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگرمسلمان تارکینِ وطن کی آبادی میں اضافے کی شرح اسی طرح برقرار رہی تو ایک دن پورا یورپ مسلم اکثریت والے براعظم میں بدل جائے گا۔اس لیے ان گروپوں کی طرف سے نہ صرف یورپ میں مزید مسلم تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہاہے، بلکہ یورپ میں پہلے سے موجود مسلم تارکین وطن کو یورپی تہذیب وتمدن،اقدار اور اطوار اپنانے پر مجبورکیا جارہا ہے ۔
پیرس میں دہشت گردی کے واقعات کا مسلم ممالک پر کیا اثر ہوگا؟اس کا اندازہ وفاقی وزیرخارجہ چودھری نثار علی خان کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اْنہوں نے کہا ہے کہ ان واقعات کے بعد یورپ اور امریکہ جانے والے پاکستانی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے وزارتِ داخلہ اور خارجہ دونوں کو ایک ایسی پالیسی بنانے یا اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے جن کے تحت باہر جانے والے پاکستانی باشندوں کو ممکنہ طور پر درپیش مشکلات کو دور کرنے میں مدد مل سکے۔اگرچہ سرکاری سطح پر مغربی ممالک کی طرف سے موجودہ صورت حال کو مغرب اور اسلام کے درمیان جنگ قرار دینے سے احتراز کیا جاتا ہے؛ تاہم فرانس کی طرح مغربی دنیاکے دیگر ملکوں میں بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی ہورہی ہے،اس لیے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی ملکوں میں رائے عامہ کا پیداہونا ایک ناگزیر امر ہے۔ دہشت گرد، خواہ اْن کا تعلق داعش سے ہویاالقاعدہ سے،بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ ان کے نظریات کی تمام تر بنیاد نفرت پر ہے۔وہ دہشت گردی کی وحشیانہ کارروائیاں کرکے اس نفرت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ صرف اسی طریقے سے یہ گروپ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔حالانکہ جب داعش کی طرف سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے فرانس کی طرف سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے خلاف ردِعمل قراردیاگیا ہے تو اس کی سیاسی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔اس سے پہلے داعش کی طرف سے مصر کے صحرائے سینائی میں ایک روسی مسافربردار طیارے کے مارگرانے کا دعویٰ بھی،روس کی طرف سے شام کے صدر بشارالاسد
کی حمایت اور داعش کے خلاف ہوائی حملوں میں روسی طیاروں کی شمولیت کی بنا پر کیا جا چکاہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ داعش کے حملوں کا صرف مغربی اور عیسائی ممالک ہی نشانہ نہیں بن رہے بلکہ ترکی میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھی داعش کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔اسلامی دنیا کے رہنمائوں کی طرف سے پیرس میں ہونے والی اس دہشت گردی کی مذمت میں جو بیانات سامنے آئے ہیں،اْن میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان واقعات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔مغربی ممالک میں بھی سرکاری سطح پر اس تاثر کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر پیرس میں دہشت گردی کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے ہاتھ ایک اور ہتھیار آجائے گا۔
اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خصوصاً شام کی موجودہ صورت حال پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟تاریخی لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ کا خطہ یورپ کے معاشی اور دفاعی مفادات کیلئے اتنا اہم ہے کہ یورپی ممالک کبھی بھی مشرقِ وسطیٰ سے ہاتھ نہیں کھینچیں گے۔اس لیے دہشت گردوں کا اگر یہ خیال ہے کہ پیرس جیسی وحشیانہ دہشت گردی کے ذریعے وہ روس اور فرانس یا کسی اور مغربی ملک کو مشرقِ وسطیٰ سے بھاگنے پر مجبور کردیں گے،تو یہ ان کی غلط فہمی ہے؛البتہ شام کے بارے میں امریکہ نے اپنے مقامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اب تک جو غیر حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائے رکھی ہے اس میں تبدیلی کے امکانات موجود ہیں،اور اس کی طرف ایک واضح اشارہ روسی وزیرخارجہ کے ایک حالیہ بیان میں ملتا ہے۔اس بیان میں روسی وزیرخارجہ نے آئندہ جنوری میں نہ صرف شام کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی اطلاع دی ہے، بلکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں شام میںایک عبوری حکومت کے قیام کے امکان کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اگرشام میں امن قائم ہوجاتا ہے تو داعش کے خلاف یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ امریکہ اور اْس کے مقامی اتحادی صدر بشارالاسد کی علیحدگی کی پیشگی شرط سے دستبردار ہوجائیں، بلکہ ایران،روس اور چین کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اس مسئلے کا ایسا حل تلاش کریں جو سب فریقوں کیلئے قابل قبول ہو اور جس کا بنیادی مقصد شام کی خانہ جنگی کو ختم کرکے ملک میں امن اور استحکام پیداکرناہو۔