پاکستان اور بھارت کے عوام دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے کتنے خواہش مند ہیں اور دنیا کو جنوبی ایشیا کے امن میں کتنی دلچسپی ہے؟ اس کا اندازہ پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے موقعہ پر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے مابین ملاقات پر مقامی اور عالمی اخبارات میں لکھے جانے والے تبصروں اور میڈیا کے دیگر ذرائع سے موصول ہونے والے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک اتفاقی ملاقات تھی، جو دو منٹ تک جاری رہی‘ لیکن نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ دنیا بھر میں اسے ایک اہم اور بروقت پیش قدمی کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔ بیشتر حلقے تو اسے دونوں ملکوں میں تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع ہونے کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند مثبت اشارے بھی مل رہے ہیں مثلاً دونوں ملکوں کا کرکٹ سیریز کھیلنے پر اتفاق۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں نریندرمودی کا اپنے خطاب میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کی مہم سے عدم اتفاق کا اظہار،اور اسلام آباد میں ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کی ممکنہ شرکت اس امر کی دلیل ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ بات چیت کے حوالے سے ایک عرصے سے چلا آرہا تعطل ختم ہونے والا ہے۔ بعض حلقے تو یہاں تک پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت آئندہ چند دنوں میں امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے والے ہیں۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت کی خارجہ امور کی وزارتوں نے اس ملاقات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی، اور عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں تاہم گزشتہ پانچ ماہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر کشیدگی کا جو گہرا سایہ چھایا ہوا تھا اس کے پیش نظر اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جولائی میں روس کے شہر ''اُوفا‘‘ میں شنگھائی تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس کے موقعہ پر نوازشریف اور نریندرمودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد پیرس میں ہونے والی یہ پہلی ملاقات تھی جس کے دوران دونوں رہنمائوں نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر بات چیت کی۔ اس بات چیت کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں؛ تاہم وزیراعظم نوازشریف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے حوصلہ افزائی قرار دیا بلکہ یہ کہا کہ بات چیت اچھی ہوئی، خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں ملکوں کو باقاعدہ بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ عالمی حلقوں میں بھی اس ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہمیشہ بات چیت کے ذریعے پاک بھارت تنازعات کے پُرامن حل کا خواہش مند ہے اور اس سلسلے میں امریکہ پاکستان اور بھارت پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر زور دیتا رہے گا۔
پیرس میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات اور اس ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کے روشن امکانات سے یہ حقیقت ایک دفعہ پھر ثابت ہو جاتی ہے کہ 2004ء میں شروع کئے گئے امن مذاکرات کا سلسلہ، جسے کمپوزٹ ڈائیلاگ بھی کہا جاتا ہے‘ نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان مدت سے چلے آنے والے پیچیدہ مسائل کے حل بلکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے بھی واحد اور بہترین فریم ورک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امن مذاکرات کے اس سلسلے کو پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام کے علاوہ دنیا بھر کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ مذاکرات کا یہ سلسلہ متعدد بار تعطل کا شکار رہا اور اب بھی دونوں ملکوں نے اسے سردخانے میں رکھا ہوا ہے لیکن گزشتہ گیارہ برسوں میں ہونے والے مذاکراتی ادوار کے نتائج کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ماضی میں ہونے والے پاک بھارت مذاکرات کے تمام سلسلوں کے مقابلے میں امن مذاکرات کا یہ سلسلہ زیادہ مثبت، تعمیری اور بارآور ثابت ہوا ہے۔ مذاکرات کے اس سلسلے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے متعدداقدامات (Confidence Building Measures)کے مطابق ہوا اور دونوں ملکوں میں کشیدگی اور امن مذاکرات میں تعطل کے باوجود ان پر اثر ہو رہا ہے۔ ان اقدامات میں مظفر آباد‘ سری نگر بس سروس کا اجرا‘راولاکوٹ اور پونچھ کے درمیان لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کا آغاز شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ 2008ء میں ممبئی کے واقعات کے بعد جب پاکستان میں امن مذاکرات کا سلسلہ ڈھائی سال تک معطل رہا‘ تو لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت بدستور جاری رہی‘ بلکہ کشمیر کے دونوں حصوں کے تجارتی اور کاروباری حلقوں کی طرف سے تجارت کو مزید وسیع کرنے کے لیے ضروری اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ بھارتی پنجاب کے ساتھ نئے زمینی راستوں کا اجرا بھی اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ ان میں امرتسر‘لاہوراور امرتسر‘ ڈیرہ باباگرونانک براہ راست بس سروس شامل ہیں۔ سندھ میں مونابائو کے پرانے ریل رابطے کو بحال کر کے سندھ اور جنوبی پنجاب کے باشندوں کو بھارت جانے اور بھارت سے ان علاقوں میں آنے والے بھارتی باشندوں کو آمدورفت کی سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ کے نام سے جاری ریل اور لاہور دہلی بس سروس کو ملا کر اس وقت پاکستان اور بھارت کو آپس میں ملانے والے زمینی راستوں کی تعداد سات ہو چکی ہے، جن میں سے پانچ بین الاقوامی سرحد اور دو کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آرپار ہیں۔ ان روابط کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر میل جول‘ خیرسگالی اور محبت میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں ہندو انتہا پسند حلقوں کی طرف سے مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ عدم برداشت کے رویے کے خلاف بھارت کے دانشوروں،تاریخ دانوں،آرٹ، ادب اور فلم سے وابستہ لوگوں کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا وہ اسی امن عمل کا ثمر ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے انتہا پسند عناصر کی عوام دشمن اور امن دشمن کاررائیوں کی مؤثرروک تھام کی جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان خیرسگالی میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
2004ء کے امن مذاکرات سے پاک بھارت کشیدگی میں نمایاں کمی کرنے میں مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں جہاں دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئے، وہاں باہمی تجارت میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ دس برسوں میں پاک بھارت تجارت میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر پاکستان بھارت کو MFN کا درجہ دینے کا فیصلہ کرے اور بھارت کے ساتھ تجارت پر عاید تمام پابندیوں کو اٹھا لے، تو دونوں ملکوں میں نہ صرف تجارت بلکہ معیشت کے دیگر شعبوں مثلاً سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں میں تعاون میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاک بھارت مذاکرات سے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے جو روشن امکانات پیدا ہوئے، ان سے پاکستان اور بھارت دونوں نے اہم فوائد حاصل کئے ہیں کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا میں بین الاقوامی برادری کی دلچسپی اور پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری، سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کی خواہش پیدا ہوئی۔ پیرس میں نوازشریف اور نریندرمودی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں امن مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو پھر سے شروع کرنے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف پاک بھارت عوام بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور دنیا کے لیے ایک اچھی خبر ہوگی۔