13 دسمبر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف، بھارت کے نائب صدر عبدالحمید انصاری، افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف نے ترکمانستان کے گیس فیلڈ دولت آباد سے افغانستان اور پاکستان کے راستے بھارت جاتی ہوئی تقریباً1800 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کی تعمیر کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ منصوبہ جو گزشتہ 25 برس سے مختلف وجوہ کی بنا پر معرضِ التوا میں تھا، تین سے چار سال میں مکمل ہو گا‘ اور اس پر تقریباً 10 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس سے جنوبی ایشیا کے تین ممالک یعنی پاکستان، بھارت اور افغانستان اپنی بڑھتی ہوئی گیس کی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ اس پائپ لائن سے 30 بلین مکعب فٹ گیس ان تینوں ملکوں کو سپلائی کی جا سکتی ہے‘ لیکن ابتدائی مرحلے میں اس سے 9 سے10 بلین مکعب فٹ گیس گزاری جائے گی‘ جس کا کچھ حصہ پاکستان اور افغانستان استعمال کرے گا‘ اور باقی گیس بھارت کے استعمال میں آئے گی۔
گیس پائپ لائن کے اس منصوبے کی ان چاروں ممالک کی معیشت کے لیے جو اہمیت ہے‘ اْس سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن یہ منصوبہ دیگر کئی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ جس کی وجہ سے اگر اس منصوبے کو دنیا کے اس حصے میں یعنی وسط ایشیائی ممالک کے لوگوں کی زندگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی کا موجب قرار دیا جائے، تو مبالغہ نہ ہو گا۔
سب سے پہلے تو اس منصوبے کی تکمیل کی بدولت پاکستان کے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ براہ راست رابطے بحال ہوں گے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے‘ جو پاکستان نے 1991ء میں دیکھنا شروع کیا تھا‘ جب وسط ایشیا کی ان مسلم ریاستوں نے سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہو کر آزادی کا اعلان کیا تھا‘ لیکن جوش اور جذبے سے بھرپور کوششوں کے باوجود گزشتہ 25 برسوں میں پاکستان اور وسط ایشیاء کی ریاستوں کے درمیان تجارتی اور معاشی روابط میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہ ہو سکا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں جاری خانہ جنگی ہے‘ کیونکہ تجارت کے لیے پْرامن حالات اور محفوظ راستے لازم ہیں۔ 2010ء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں پہلی دفعہ یہ شق رکھی گئی تھی کہ افغانستان کو پاکستان کی طرف سے اپنی سرزمین میں سے گزر کر بھارت سے تجارت کرنے کی رعایت کے بدلے پاکستان کو بھی افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک رسائی کی رعایت دی جائے گی۔لیکن پانچ برس بیت جانے کے باوجود اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ٹرانس افغانستان ترکمان گیس پائپ لائن‘ جسے مختصر الفاظ میں ''تاپی‘‘ بھی کہا جا رہا ہے، اس سلسلے میں پہلا اقدام ہے جس کے ذریعے وسط ایشیا کے ایک اہم ملک ترکمانستان کی گیس افغانستان کے راستے جنوبی ایشیا کے دو سب سے بڑے اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک یعنی پاکستان اور بھارت پہنچے گی۔
پاکستان اور بھارت کے بعد ترکمانستان کی اس گیس کو جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش اور نیپال تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر ''تاپی‘‘ ایشیا کے دو بڑے خطوں یعنی جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان توانائی کی ترسیل کا ایک بہت اہم منصوبہ ہے۔ ان دونوں خطوں کے درمیان بجلی کی ایک ٹرانسمشن لائن کا سا۔1000 (CASA-1000) کے منصوبے کے تحت بچھائی جا رہی ہے۔ یہ بجلی کرغیزستان سے تاجکستان اور افغانستان کے راستے پاکستان پہنچے گی۔ بجلی اور گیس کے ان دو اہم درآمدی منصوبوں کی تکمیل سے جہاں پاکستان کو اپنے ہاں توانائی کے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی، وہاں جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی ترقی کے لیے علاقائی تعاون میں بھی اضافہ ہو گا۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت کو محض گیس کی ترسیل کے پیمانے پر نہیں ناپا جا سکتا، بلکہ ایشیا کے ان دو بڑے خطوں کے درمیان مختلف شعبوں یعنی تجارت، اقتصادی تعاون، آمدورفت، توانائی‘ سیاحت، ثقافت اور سکیورٹی میں بھی علاقائی تعاون میں اضافہ ہو گا۔
پندرہویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی تسلط سے پہلے چین سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ایشیا کے مختلف خطے آپس میں تجارتی اور آمدورفت کے راستوں اور شاہراہوں سے باہمی طور پر منسلک تھے۔ یہ تجارتی شاہراہیں خشکی اور سمندر دونوں ذریعوں سے زیرِ استعمال تھیں۔ ان میں مشہور شاہراہِ ریشم اور بحرِ ہند کے راستے چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان رابطہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یورپی نو آبادیاتی تسلط کے بعد شاہراہ ریشم تو زوال کا شکار ہو گئی اور بحری راستوں پر پرتگیزی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز قابض ہو گئے‘ جنہوں نے چین، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان باہمی تجارتی رابطوں کو منقطع کر کے ان تمام ممالک کی تجارت کا رْخ یورپ کی طرف موڑ دیا۔ یہ اسی نوآبادیاتی تسلط کا نتیجہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘کے باوجود خطے کے آٹھ ممالک کی کل تجارت کا80 فیصد سے زائد حصہ ابھی تک مغربی اور یورپی ممالک کے ساتھ تجارت پر مشتمل ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور خصوصاً سرد جنگ کے اختتام پر دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ان تبدیلیوں میں پرانے تجارتی راستوں اور رابطوں کی بحالی بھی شامل ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی ، پاک چین اکنامک کوریڈور کی تعمیر اور ''تاپی‘‘ گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی تبدیلی کے اس عمل کا مظہر ہے۔
اس منصوبے کا ایک اہم پہلو بھارت کی شمولیت ہے۔ پاکستان کے راستے افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط کا قیام بھارت کی ایک دیرینہ خواہش ہے جس کا اظہار اُس نے ماضی میں متعدد بار کیا‘ لیکن پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اُس کی یہ خواہش اب تک پوری نہیں ہو سکی۔ پاکستان اپنی سرزمین سے نہ صرف بھارت افغان تجارت کا مخالف تھا، بلکہ 1990ء کی دہائی میں جب پائپ لائن کے اس منصوبے میں بھارت نے شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی تو پاکستان نے بھارت کی اِس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ اس کے سیاسی تنازعات‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے‘ حل نہیں ہوتے اُس وقت تک بھارت کو نہ تو پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کی راہداری کی سہولت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی وسطی ایشیا کے معدنی ذخائر تک بھارت کو رسائی دی جا سکتی ہے‘ لیکن وسطی ایشیا کے ممالک کی سوچ مختلف تھی۔ جب 1994ء میں گیس پائپ لائن کے منصوبے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی‘ تو ترکمانستان کی طرف سے بھارت کی شمولیت پر اِس وجہ سے اصرار کیا گیا کہ صِرف پاکستان اور افغانستان کی محدُود ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اتنا بڑا اور لاگت والا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بھارت کی مارکیٹ کا سائز چونکہ پاکستان اور افغانستان کی مارکیٹ سے بڑا ہے، اِس لیے معاشی لحاظ سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ صِرف اُسی صورت کامیاب ہو سکتا تھا‘ جب بھارت جیسا بڑا مُلک اس میں شامل ہو۔ اِس لیے پاکستان کو بھی بھارت کی شمولیت قبُول کرنا پڑی کیونکہ اِس کے بغیر کوئی پارٹی اِس منصوبے میں سرمایہ کاری پر راضی نہیں تھی۔ بھارت کو نکال کر گیس پائپ لائن کے اِس منصوبے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ خود بھارت کے لیے بھی اِس میں شمولیت ایک بریک تھرُو سے کم نہیں کیونکہ وہ ایک عرصہ سے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اِس قسم کے روابط کی کوشش میں مصروف تھا۔ اِس لیے سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے نائب صدر عبدالحمید انصاری نے کہا کہ بھارت کے لیے اِس منصوبے کا آغاز ایک دیرینہ خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور کسی ایک منصوبے کا نام نہیں‘ بلکہ چھوٹے بڑے کئی منصوبوں کا مجموعہ ہے اور اِن سب کا مقصد ایشیا کے اِن دو خطوں کے ممالک اور چین کے درمیان تجارت، علاقائی تعاون، مواصلاتی رابطوں اور اقتصاد ی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ٹرانس ترکمانستان افغانستان، پاکستان اور انڈیا یعنی ''تاپی‘‘ (TAPI) بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے اور یہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے بڑے منصوبے کو تقویت دے گا کیونکہ اِس کا تعلق توانائی سے ہے، جس کی ترقی پر سب سے زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
اِس منصوبے کا سیاسی پہلو بھی ہے کیونکہ اس منصوبے سے چار ممالک میں تعاون فروغ پائے گا‘ جو نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی امن اور تعاون کا باعث بن سکتا ہے۔