وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے حال ہی میں سری لنکا کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا۔ دورہ کے اختتام پر دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں مثلاً تجارت، فنانشل انٹیلی جنس، سائنس و ٹیکنالوجی اور صحت میں دوطرفہ بنیادوں پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے متعدد معاہدات پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے پیسے کے استعمال پر نظر رکھنے کے حوالے سے تعاون بڑھانے کے سلسلے میں مفاہمت کی ایک یادداشت (ایم او یو) پر بھی دستخط کیے گئے۔ دونوں ملکوں نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے پر بھی زور دیا ہے جو آپس میں ''آزاد تجارت معاہدہ‘‘ کے باوجود 325 ملین ڈالر سالانہ کے حجم سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
سری لنکا‘ جو ماضی میں سیلون اور سراندیپ کے نام سے جانا جاتا تھا‘ بحر ہند کے عین وسط میں واقع ایک انتہائی اہم سٹریٹیجک محلِ وقوع کا حامل ملک ہے۔ مشرق میں آبنائے ملاکا اور مغرب میں نہر سویز اور راس اْمید (Cape of Good Hope) کے راستے مشرقِ بعید، جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ کو ملانے والے بحری تجارتی راستے سری لنکا کے پاس سے گزرتے ہیں۔ اس لیے دنیا کے تمام بڑے ممالک مثلا امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور چین سری لنکا کے ساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ بحر ہند اور جنوبی ایشیا کی دفاعی حکمتِ عملی میں بھی سری لنکا کے کردار کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپانی بحری جنگی جہاز خلیج بنگال تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے، تو انہیں بحر ہند اور اس سے آگے تیل کی دولت سے مالامال خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کی طرف آگے بڑھنے سے روکنے میں برطانوی بحریہ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سری لنکا اس کے پاس تھا‘ جہاں اس نے کولمبو میں ایک بہت بڑا بحری اڈہ قائم کر رکھا تھا‘ جسے استعمال میں لا کر برطانوی بحریہ نے جاپان کی پیش قدمی روک دی۔ اس لیے سری لنکا کو ایک بہت بڑے طیارہ بردار جہاز (ایئرکرافٹ کیریئر) سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دورہ سری لنکا کے نتائج پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دورہ کے دوران میں دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے خصوصاً دہشت گردی اور اس کیلئے منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے کے استعمال کو روکنے کیلئے تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ اس شعبے میں قریبی تعاون کا ایک مخصوص تناظر ہے۔ پاکستان کی طرح سری لنکا بھی لمبے عرصہ تک دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ دہشت گردی کے ہاتھوں سری لنکا نے بہت جانی اور مالی نقصان اْٹھایا۔ ہزاروں شہریوں کی جانی قربانی کے علاوہ سری لنکا کو اپنے کئی اہم سیاسی رہنمائوں کی ہلاکت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ اس کی معیشت تباہ ہو گئی۔ سری لنکا کی معیشت میں سیاحت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ لیکن دہشت گردی کے سبب سری لنکا میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ تقریباً رْک گیا تھا۔ 2009ء میں تامل جنگجوئوں کی تنظیم ''ایل ٹی ٹی ای‘‘ کے خاتمہ کے بعد سری لنکا میں دہشت گردی کا آخرکار خاتمہ ہوا۔
سری لنکا کو دہشت گردی کے خلاف کامیابی دلانے میں پاکستان کا بڑا ہاتھ ہے‘ اور اس کا اعتراف سری لنکا کے رہنمائوں کی طرف سے وزیر اعظم کے دورہ کے دوران بھی کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے سری لنکا کو دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے ماضی میں جو امداد فراہم کی گئی تھی، اْس کی بنیاد پر پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ بحری مشقیں اور پاکستان کی طرف سے سری لنکا کو دفاعی سامان کی فروخت بھی شامل ہے۔ سری لنکا کی طرف سے پاکستان میں چین کے تعاون سے تیار ہونے والے آٹھ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی خرید اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مختلف شعبوں میں تعاون کے علاوہ، پاکستان میں سری لنکا کیلئے نمایاں خیر سگالی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ1971ء میں جب بھارت نے اپنی فضائی حدود کو بند کر کے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فضائی رابطہ منقطع کر دیا تھا، تو سری لنکا نے اپنے ہاں پاکستان کو لینڈنگ رائٹس دے کر اس رابطے کو بحال کرنے میں مدد دی تھی۔ 1971ء کی جنگ کے دوران میں سری لنکا کی طرف سے مہیا کی گئی اس سہولت نے پاکستان کو بہت فائدہ پہنچایا تھا‘ جسے پاکستانی ابھی تک نہیں بھولے۔
اگرچہ جنوبی ایشیا میں واقع چھوٹے ممالک میں سے سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں؛ تاہم ان تعلقات کو مزید وسعت دینے کے جو امکانات اور ضرورت ہے، اْس کے تناسب سے ان کو بڑھایا نہیں جا سکا۔ اس کا ذکر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی تقریر میں بھی کیا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال دو طرفہ تجارت ہے جو دونوں ملکوں میں ایک آزاد تجارت کے معاہدہ ہونے کے باوجود 325 ملین ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں متعدد پاکستانی برآمدات کیلئے سری لنکا کی مارکیٹ پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اس کی کچھ بھی وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن پاکستان کیلئے یہ ایک تشویشناک بات ہے۔ خاص طور
پر اس مرحلے پر جبکہ پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں سری لنکا کیلئے پاکستانی برآمدات میں اضافے پر زور دیا ہے‘ اور اس کیلئے سری لنکا کو پاکستان سے درآمد کرنے والی اشیا پر ٹیرف کم کرنے کی درخواست بھی کی ہے‘ لیکن سری لنکا کیلئے پاکستانی برآمدات میں کمی کی وجہ صرف ہائی ٹیرف نہیں ہے۔ ہمارے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی منڈی میں برآمدات کے شعبے میں سخت مسابقت پائی جاتی ہے۔ یہی حال سری لنکا کی مارکیٹ کا ہے جہاں پاکستان کو دوسرے کئی ممالک مثلاً جاپان، چین کی طرف سے برآمدات کا سخت مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان سری لنکا کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اْسے اپنی مصنوعات‘ جن میں زرعی اشیا بھی شامل ہیں‘ کا معیار بلند کرنا ہو گا۔ سری لنکا پاکستانی کنو (سٹرس)کیلئے ایک عرصہ سے بڑی منافع بخش منڈی تھا‘ لیکن کچھ عرصہ سے یہ منڈی پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے کیونکہ وہاں چین کا ایک ایسا کنو فروخت ہو رہا ہے جس میں بیج نہیں ہوتے۔ پاکستان میں بغیر بیج کے کنو کی افزائش ابھی تجرباتی مرحلوں سے ہی گزر رہی ہے۔ اگر اسے کمرشل سطح پر پیدا کر کے اس کی مارکیٹنگ نہ کی گئی تو سری لنکا کی طرح دیگر ممالک کی منڈیاں بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔
پاکستان کے پالیسی ساز اداروں خصوصاً وزارتِ خارجہ کو سری لنکا کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع تر تناظر میں رکھ کر فروغ دینا چاہیے۔ اس لیے کہ ان ممالک کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات خصوصاً عوامی سطح پر رابطوں اور خیر سگالی کو فروغ دینے کی کوشش انتہائی ضروری ہے‘ کیونکہ اس سے پاکستان کے طویل المیعاد سیاسی اور دفاعی مفادات کو تحفظ ملتا ہے۔ اب تک جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری پالیسی کا تمام تر محور بھارت ہی رہا ہے۔ بے شک اس کی چند ٹھوس وجوہ بھی ہیں۔ بھارت خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی تہذیبی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے لمبی بین الاقوامی سرحد بھارت سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ ہمارے کئی اہم تنازعات موجود ہیں جن کے حل کیلئے پاکستان کو بھارت کے ساتھ سروکار رکھنا پڑتا ہے‘ لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو نظر انداز کر دیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ ان ممالک کے عوام میں پاکستان کیلئے خیرسگالی کے بڑے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا اور نیپال دو ایسے ممالک ہیں جہاں نہ صرف عوامی سطح پر پاکستان کیلئے محبت اور دوستی کے جذبات موجود ہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی ان ملکوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کی خواہش پائی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر پاکستان کی طرف سے جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے ساتھ نہ صرف تجارت اور معاشی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایک جامع پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا بلکہ ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں تعلقات بڑھانے کیلئے بھی چند اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان میں پاکستان کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے طلبا کو تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنے کیلئے سینکڑوں وظائف کا اعلان بھی شامل تھا۔ لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس سمت کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اب جبکہ پاکستان میں ایک ایسی منتخب جمہوری حکومت قائم ہے جو اہم قومی مفادات کو فروغ دینے کیلئے ایک وسیع دور اندیشانہ سوچ اور حکمتِ عملی میں یقین رکھتی ہے‘ پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پرانے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے خطے کے تمام چھوٹے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کو تحفظ فراہم ہو گا بلکہ پورا خطہ اس سے مستفید ہو گا۔