اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے مسئلہ پر مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کی دُوری سے ایک دفعہ پھر ثابت ہو گیا ہے کہ اگر سیاسی قیادت کے ہاتھ باندھے نہ گئے ہوں تو وہ دُوراندیشی پر مبنی صحیح فیصلہ کرنے اور مُشکل سے مُشکل گتھی سلجھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری اربوں ڈالر کی مالیت کا ایک ایسا میگا پراجیکٹ ہے جو مُلک کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے اشتراک اور تعاون سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ لیکن جب سے اس منصوبے کا اعلان ہوا ہے‘ مُلک کے دو چھوٹے صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرف سے اس کے مختلف پہلوئوں اور تکمیل کے شیڈول پر متعدد تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ویسے تو پنجاب اور سندھ کی اس منصوبے میں شرکت اتنی ہی اہم ہے جتنی باقی دو صوبوں کی‘ لیکن خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرف سے مرکزی حکومت پر اس منصوبے کے حوالے سے تنقید میں صوبائیت کا رجحان تقویت پکڑتا نظر آ رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز میں اس وقت ایک ایسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے جس کا سپورٹ بیس پنجاب میں ہے اور اقتصادی راہداری کے مسئلے پر اختلافات میں تیزی آ رہی تھی‘ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت پر پنجاب کے مفادات کو زیادہ عزیز رکھنے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا۔ خیبرپختونخوا، جہاں تحریک انصاف کی قیادت میں ایک
مخلوط حکومت قائم ہے ،کے
وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا انداز خاصا جارحانہ تھا اور وہ وفاقی حکومت پر پنجاب کی خاطر باقی دو صوبوں کے مفادات کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر وفاق نے ان کے صوبے کے مطالبات کے مطابق راہداری کے روٹ اور اس کے ساتھ ساتھ اکنامک زون قائم نہ کئے تو وہ اس منصوبے پر کے پی کے کی حد تک عملدرآمد نہیں ہونے دینگے۔ بلوچستان میں چونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے‘ اس لیے اس کے نئے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی طرف سے راہداری کے منصوبے پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا گیا‘ بلکہ انہوں نے صوبے میں اس منصوبے پر تنقید کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے سے باز رہنے کو کہا ہے‘ تاہم جیسا کہ اسلام آباد میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے دوران کی گئی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے‘ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو اس منصوبے پر اتنے ہی شدید تحفظات ہیں جتنے خیبرپختونخوا کو‘ خصوصاً گوادر کے مسئلے پر نیشنلسٹ پارٹیوں کے موقف کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ اقتصادی راہداری کے مسئلے پر اٹھائے گئے اعتراضات سے پنجاب اور ملک کے چھوٹے صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پنجاب سے ناراضگی کے جذبات تو شروع سے ہی موجود ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر پیدا ہونے والی غلط فہمیوں سے ان جذبات کو اور بھی ہوا مل رہی تھی۔ اس لیے وزیراعظم جناب محمد نوازشریف کی طرف سے اس تیزی سے بگڑتے ہوئے مسئلے پر مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے ایک اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ نہ صرف ایک خوش آئند بلکہ
بروقت اقدام تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر گزشتہ برس مئی میں بلائی گئی کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ موثر اور ٹھوس اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مثلاً 28 مئی 2015ء کی آل پارٹیز کانفرنس میں راہداری کے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی، لیکن 15 جنوری 2016ء کو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلے کے مطابق اس کام کے لیے ایک گیارہ رُکنی سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہونگے اور وزیراعظم کی سربراہی میں ہر تین ماہ بعد اس کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب احسن اقبال اس کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر ہوںگے۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ بلوچستان اور کے پی کے سے گزرنے والے مغربی روٹ کو 2018ء تک ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔ کے پی کے اور بلوچستان کی طرف سے یہ ایک اہم مطالبہ تھا اور اسے منظور کر کے وفاق نے فراخدلی اور صوبوں کے بارے میں مفاہمت کے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ راہداری کے منصوبے کے تینوں روٹوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور صنعتی زون چاروں صوبوں سے مشاورت کی بنیاد پر قائم کئے جائیں گے اور راہداری سے منسلک انفراسٹرکچر کی تعمیر کی نگرانی وزیراعظم خود ذاتی طور پر کریں گے۔ اس طرح صوبائی حکومتوں اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کوریڈور کی تعمیر کے بارے میں اٹھائے گئے بہت سے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دے دیا گیا ہے۔ کانفرنس کے بعد اہم قومی رہنمائوں اور صوبائی حکومت کے نمائندوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بھی کانفرنس کے فیصلوں پر اطمینان ظاہر کیا لیکن کیا پاک چین اکنامک کوریڈور کی تعمیر سے متعلقہ تمام متنازعہ امور حتمی طور پر طے پا گئے ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے۔ اس لیے کہ اکنامک کوریڈور ایک طویل المیعاد بھاری سرمایہ کاری کا کثیرالجہتی منصوبہ ہے اور جُوں جُوں اس کی تکمیل کے مراحل طے ہوتے
جائیں گے کئی نئے مسائل پیدا ہونگے‘ کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو کوریڈور کے اعلان سے بھی بہت پہلے سے چلے آ رہے ہیں البتہ کوریڈور کے اعلان کے بعد انہوں نے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ ان میں گوادر کا مسئلہ بھی شامل ہے جس پر وفاقی حکومت اور بلوچستان (خصوصاً نیشنلسٹ نقطہ نظر سے) کے موقف میں بہت فرق ہے۔ بلوچستان کے قوم پرست حلقے، جن میں بی این پی (مینگل) کے صدر سردار اختر مینگل پیش پیش ہیں، گوادر کو صوبائی ملکیت میں دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کا یہ اصرار ہے کہ کوریڈور کے ایک انتہائی اہم ٹرمینل کی حیثیت سے گوادر کی تعمیر سے ملک کے دیگر حصوں سے افرادی قوت کی آمد سے مقامی آبادی کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا امکان ختم کیا جائے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے بلوچستان کے اس خدشے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم کوریڈور کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں اور اسے خوش آمدید کہتے ہیں‘ لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ بلوچستان کی بلوچ آبادی اقلیت میں تبدیل نہیں ہو گی؟‘‘
اسلام آباد کی آل پارٹیز کانفرنس میں طے ہوا ہے کہ گوادر کے مسئلے کو پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ اس طرح گوادر کے علاوہ اور بھی کئی اُمور پر ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے اور آنے والے دنوں میں جب کوریڈور کی تعمیر میں تیزی آئے گی تو یہ مسائل سر اٹھائیں گے اور قومی قیادت کو ایک دفعہ نہیں بلکہ متعدد بار انہیں حل کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ آٹھ ماہ کے عرصہ میں دو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اور وفاقی وزیر احسن اقبال کے صوبائی حکومتوں سے رابطے اور مشاورت بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے نہ صرف تمام وفاقی اکائیوں بلکہ مختلف سوچ اور نقطہ نظر کی حامل سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر پیچیدہ اور حساس مسائل کا تسلی بخش حل نکالنے کی پالیسی اپنا کر پاکستان کی سیاست میں ہی نہیں بلکہ وفاق پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے اور خوش آئند باب کا اضافہ کیا ہے۔ اب تک اس کوشش کے جس طرح مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں امید ہے کہ اس سے آگے آنے والے مسائل بھی حل کر لیے جائیں گے لیکن اس کی کامیابی کی ضمانت صرف اس صورت میں دی جا سکتی ہے کہ مرکزی حکومت صوبوں کے ساتھ مساویانہ اور غیر امتیازی رویہ اختیار کرے کیونکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اصل جھگڑا باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔