"DRA" (space) message & send to 7575

اوّل آں بنیاد ر اویران کنند

یہ مصر عہ مثنوی مولانا رومؒ کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔پورا شعر یوں ہے۔
ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند
اوّل آں بنیاد را ویراں کنند
(مثنوی مولانا رومؒ،دفتر چہارم۔صفحہ 227)
اْردو میں اس کا ترجمہ کچھ اس طرح بنتا ہے :''جس پرانی بنیاد کو آباد کرتے ہیں، کیا پہلے پرانی بنیادوں کو مسمارکرتے ہیں؟یعنی جب پرانی بنیادوں پر نئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو ان (پرانی)بنیادوں کو اکھاڑ دیا جاتا ہے۔
مولانا رومؒنے یہ شعر تصوف کی منازل طے کرنے کے ضمن میں فرمایا،لیکن دہشت گردی کے خلاف پاکستان اس وقت جس نازک اور پیچیدہ صورتِ حال سے دوچار ہے،اْس پر بھی یہ شعر مکمل طور پر صادق آتا ہے۔
پاکستان کی فوج،پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں گزشتہ تقریباًدس برسوں سے دہشت گردوںسے نبرد آزما ہیں۔اس جنگ میں قومی وسائل کو کس قدر جھونکنا پڑا،اور مالی نقصان کس حد تک اْٹھانا پڑا،وہ ایک طرف،50ہزارسے زائد پاکستانی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ان میں جان ہتھیلی پر رکھ کر دور دراز وادیوں،پہاڑوں اور جنگلوں میںلڑنے والے ہمارے بہادر فوجی جوان اور افسر،شہری آبادی کی حفاظت پر مامور پولیس کے سپاہی اور افسر اور بالکل معصوم اور غیر مسلح شہری مرد،عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔جون 2014ء سے ''ضرب عضب‘‘کے تحت شمالی وزیرستان میں جنگجوئوں کے خلاف کارروائی اور دسمبر2014ء سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردوں اور اْن کے سرپرستوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو واقع ہوئی،مگر 20جنوری کو چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک اب بھی 
قائم ہیں اور اتنے طاقت ور ہیں کہ جہاں چاہیں،جب چاہیںکارروائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردی کا یہ واقعہ، جس میں21افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے،اپنی نوعیت کا صرف ایک ہفتے میں تیسرا واقعہ تھا۔اس سے صرف ایک روز قبل یعنی19جنوری کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں خاصہ دار اور لیویز کی ایک چیک پوسٹ پر خود کْش حملہ ہوا جس میں10افراد شہید ہوئے۔شہید ہونے والوں میں خاصہ دار فورس کے اسسٹنٹ لائن مین نواب شاہ،اور قبائلی علاقے کے ایک صحافی محبوب شاہ بھی شامل تھے۔جمرود کے خود کْش حملے سے 6روز قبل یعنی 13جنوری کو کوئٹہ میں انسداد پولیو کے ایک سنٹر پر خود کْش حملہ کیا گیا، اس حملے میں15افراد شہید ہوئے جن میں دو کے علاوہ باقی تمام کا تعلق پولیس اور نیم فوجی دستے سے تھا۔
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پہلے پاکستانی طالبان کے ایک سینئر کمانڈر عمر منصور نے بیان جاری کیا۔ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو ٹیلیفون کے ذریعے اطلاع دیتے ہوئے اْس نے دعویٰ کیا کہ اْس کے چار آدمیوں نے یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ہے کیونکہ یہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور یہاں سے پاک فوج کو مدد فراہم کی جاتی ہے؛ تاہم چند گھنٹوں کے بعد اسی تنظیم کے سرکاری ترجمان محمد خراسانی نے کمانڈر عمر منصور کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اْس کی تنظیم اس حملے میں ملوث نہیں ہے،کیونکہ یونیورسٹی ایک غیر فوجی ادارہ ہے اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو ہم قوم کا معمار اور ان کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس محمد خراسانی کے ساتھ13جنوری کو کوئٹہ کے اس خود کْش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والوںمیں ایک اور دہشت گرد تنظیم''جند اللہ‘‘بھی شامل تھی۔جمرودکے خود کْش حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم''لشکر اسلام‘‘نے قبول کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ اْس کے ایک کارکْن نے کیا تھااور اس سلسلے میں باقی تنظیموں کی طرف سے دعوے بے بنیاد ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کے ملا فضل اللہ گروپ کے ترجمان محمد خراسانی نے بھی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دہشت گردی کے ان بڑے واقعات کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور سڑک کنارے نصب شْدہ بم دھماکوں کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو نے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ نہ صرف قبائلی علاقوں بلکہ ایجنسیوں سے ملحقہ علاقوں میںبھی ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن چکا ہے۔ان حملوں کا شکار عام طور پر وہ قبائلی عمائدین ہوتے ہیں جو امن کمیٹیوں کے رْکن ہونے کی حیثیت سے حکومت یا فوج کی مدد کرتے ہیں یا مقامی طور پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے ان پے در پے واقعات نے بیشتر حلقوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اپنی موجودہ حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس میں صرف طاقت کے استعمال پر تکیہ کرنے کی بجائے اس کے سیاسی،سماجی اور فکری پہلوئوں کو بھی شامل کرکے ایک ایسی جامع پالیسی اختیار کرنی چاہیے جس میں دہشت گردی یا دہشت گردوں کے بارے میں کسی قسم کا کوئی ابہام یا تحفظات نہ ہوں۔نہ صرف گزشتہ دنوں میں بلکہ اس سے پہلے بھی ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والی جن تنظیموں کے نام سامنے آئے، اْس کے بعد چند باتیں ایسی ہیں جو اب حتمی طور پر طے ہوجانی چاہئیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں خود ہماری اپنی سر زمین میں موجود ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے دیگر ملکوں میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے رابطے ہوں لیکن پاکستان میںخود کْش حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث ماسٹر مائنڈ،سہولت کار،مالی امداد فراہم کرنے والوں اور عملی کارروائی کرنے والوں سب کا تعلق پاکستان سے ہے۔دوسرے دہشت گردی اب صرف ایک علاقے،لسانی گروپ،فرقے یا تنظیم تک محدود نہیں رہی،بلکہ فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث انتہا پسند اور جہادی تنظیموں القاعدہ طالبان اور داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ایک وسیع نیٹ ورک کے مربوط عناصر ہیں۔
اب یہ کھلے عام تسلیم کیا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک ہماری ماضی کی غلط پالیسیوں اور حقیقت سے چشم پوشیوں کا شاخسانہ ہے اور اسے جڑ سے اْکھاڑ پھینکنے کیلئے جس عزم نو کی ضرورت ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک ہم اس ماضی سے اپنا ناتہ جو کسی نہ کسی صورت میں اب بھی قائم ہے ،مکمل طور پر نہ توڑ دیں۔دوسرے الفاظ میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کیلئے جن پرانی بنیادوں پر استوار موجودہ پالیسی فریم ورک سے کام لیا جارہا ہے اْسے یکسر بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ اْس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کی پرانی بنیادوں کو مسمار نہیں کیا جاتا۔
دہشت گردی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی کوکھ سے نکلی ہے او ر ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ان تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی،اْنہیں پروان چڑھایا گیا اور پھرانہیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا۔جنرل ضیا کا مسئلہ یہ تھا کہ اْس نے ناجائز اور غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کیا تھا،اْسے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کیلئے ایک وفادار حلقے کی ضرورت تھی۔انتہا پسند تنظیموں پر مشتمل یہ حلقہ ضیاء الحق کا سب سے بڑا حامی تھی۔اور اس حمایت کے عوض انہیں سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی طیارہ کے حادثہ میں ناگہانی موت کے بعد سول حکومتوں کا جو دور شروع ہوا،اْس میں بھی یہ تنظیمیں پوری طرح سرگرم رہیں۔اس کی دو وجوہ تھیں۔ایک تو ان تنظیموں کی باگ ڈور بدستور نان سول طاقت ور حلقوں کے ہاتھوں میں رہی جنہوں نے نہ صرف جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں خانہ جنگی میں فریق بن کر جہاد کے نام پر تشکیل پانے والی سب تنظیموں کیلئے طالبان کی صورت میں ایک نیا اتحادی بھی تلاش کر لیا۔دوسرے ان کو طالبان کی طرف سے ملنے والی امداد تھی۔ افغانستان پر طالبان پانچ برس 2001ء۔1996ء تک برسرِاقتدار رہے۔اس دوران پاکستان کی انتہا پسند تنظیمیں فرقہ وارانہ تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کا ارتکاب کرنے کے بعد افغانستان میں پناہ حاصل کرتی تھیں،جہاں طالبان حکومت نے اْنہیں اپنے تربیتی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔طالبان اور پاکستان کی انتہا پسند تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ بعد میں القاعدہ اور پاکستان کی فرقہ وارانہ تنظیموں کے درمیان تعاون کی بنیاد بنا، جو اب داعش کے ساتھ مربوط تعلق کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔اس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کرکے انتہا پسندی کا جو بیج بویا گیا تھا وہ اب ایک تن آور درخت بن چکا ہے۔اس کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنے کیلئے دہشت گردوں کی حلیف فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں کے خلاف بھی بھر پور کاروائی کرنی پڑے گی۔یعنی مولانا رومؒکے الفاظ میں ماضی کی پالیسیوں سے ہٹ کر فکر ی بنیاد یعنی دہشت گردی کی مذہبی انتہا پسندی کو بھی مسمار کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں