مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے شام کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنیوا میں مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے شام ڈی مستورانے ان مذاکرات کو''مشکل اور پیچیدہ‘‘دیتے ہوئے کہا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مذاکرات کب تک جاری رہیں گے؛تاہم اگلے ہفتے کے آغاز تک انہیں نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
شام میں گزشتہ پانچ برس سے صدربشارالاسد کی حکومت اور باغیوں کے درمیان خونریز خانہ جنگی جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک اڑھائی لاکھ افراد جن میں مرد،عورتیں اور بچے شامل ہیں،ہلاک ہوچکے ہیں۔ لگ بھگ ایک کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ اور دوردراز ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔خانہ جنگی کی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اب تک کئی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن شام کا بحران مزید پیچیدہ اور گہرا ہوتا چلا آیا ہے۔اس کی وجہ شام کے اندرونی معاملات میں خطے اورباہر کے ممالک کی بلاجواز مداخلت ہے۔اس مداخلت نے شام کی خانہ جنگی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اور بھی تیز کردیاہے۔مثلاً دوسال قبل اقوام متحدہ کے زیر اہتمام حکومت اور شام کی حزب مخالف کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا تھا‘مگر یہ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ صدربشارالاسد کے مخالفین جن میں شامی حزب مخالف کے علاوہ امریکہ،سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں بھی شامل تھیں،سب صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی پر اصرار کر رہے تھے۔شامی حکومت کے خلاف برسرِپیکار مختلف طاقتوں کے اس وسیع تر اتحاد کو یقین تھا کہ طاقت کے بل بوتے پر وہ اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے لیکن گزشتہ دوبرسوں میں مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ شامی اپوزیشن اور اْس کے حامیوں‘ دونوں کو اپنے موقف اور حکمتِ عملی میں نظر ثانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
مثلاََ شام کے حالات سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے ''داعش‘‘نے جس طرح نہ صرف اپنے زیرِتسلط علاقے کو وسعت دی بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں یعنی امریکہ اور فرانس میں بھی اپنی دہشت گردی کا جال بچھایا‘ اس نے امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ شام میں صدر بشارالاسد کو اقتدار سے فوری طور پر علیحدہ کرنا اتنا اہم نہیں جتنا ''داعش‘‘کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور دہشت گردی کو روکنا ہے۔ان ممالک اور شامی اپوزیشن کی طرف سے اگرچہ اب بھی صدر بشارالاسد کی علیحدگی اور ایک عبوری حکومت کے قیام پر زور دیاجارہا ہے؛ تاہم امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی طرف سے عبوری حکومت میں صدر بشارالاسد کے کردار کو بھی تسلیم کیا جارہا ہے۔
شام کی سرکاری افواج کی حمایت میں روسی فضائیہ کے حملوں نے بھی شام کے بحران میںایک اہم اور نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ان فضائی حملوں کا گزشتہ سال ستمبر میں آغاز ہوا تھا۔اگرچہ روس کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اْس کے فضائی حملوں کا نشانہ''داعش‘‘کے ٹھکانے اور فوجی قافلے ہیں تاہم روس کی مداخلت نے شامی اپوزیشن کے خلاف صدربشارالاسد کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اور اب ایک کے بعد دوسرا شہر حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر شام میں خانہ جنگی جاری رہی تو مُلک میں رُوس کی مداخلت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ مشرقِ وُسطیٰ کے خطے میں جہاں پہلی جنگِ عظیم کے اختتام سے اب تک مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی بالادستی رہی ہے، رُوس ایک دفعہ پھر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سیاسی اور جنگی پہلوئوں کے علاوہ شام کے بحران کا ایک انتہائی دردناک پہلُو انسانی تباہی کا بھی ہے ۔ شام رقبے اور آبادی کے لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ کے چھوٹے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اِس کی کُل آبادی اڑھائی کروڑ ہے جس میں سے اڑھائی لاکھ لُقمہ اجل بن چکے ہیں اور ایک کروڑ افراد کو مُلک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
شام میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کی بڑی وجہ صرف صدر بشارالاسد اور اپوزیشن میں لڑائی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی مداخلت بھی ہے جو شام میں لڑنے والے مختلف دھڑوں کی امداد کیلئے کی جا رہی ہے ۔ پچھلے دو برس میں اِس لڑائی نے شدّت اختیار کی اور اب امریکہ کی سربراہی میں نیٹو ممالک اور رُوس کی جانب سے فضائی حملوں کی وجہ سے مزید تباہی ہو رہی ہے۔ ہوائی حملوں کی شِدّت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکم اور دو جنوری کے چوبیس گھنٹوں میں 270ہوائی حملے کئے گئے ، جِن کی زد میں عسکری اہداف ہی نہیں شہری آبادیاں بھی آئیں۔ اِس لئے شام میں مسلح دستوں کے ساتھ غیر مسلح شہری مرد، عورتیں اور بچّے بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔
اِن تباہ کاریوں کے پیشِ نظر بین الاقوامی برادری کی جانب سے شام میں جنگ بندی، مستقل امن اور سیاسی مسئلے کے حل کیلئے دبائو میں برابر اضافہ ہو رہا تھا اور اِسی دبائو کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد 2254منظُور کر کے بات چیت کا یہ عمل شروع کیا ہے۔ اِس میں فوری جنگ بندی ، عبوری حُکومت کا قیام، شام کیلئے ایک نئے آئین کی تشکیل اور نئے آئین کے تحت مُلک میں انتخابات کا پروگرام شامل ہیں۔
شام پر مذاکرات کے موجودہ دور کو آغاز میں ہی سخت مشکلات اور روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مختلف گروپوں پر مشتمل اپوزیشن نے جِس کی پُشت پناہی امریکہ اور سعودی عر ب کر رہے ہیں، ابتدا میں مذاکرات میں شرکت کیلئے چند شرائط کا اعلان کر دیا۔ اِن شرائط میں چند شہروں کے اردگرد شام کی سرکاری فوجوں کا محاصرہ ختم کرنا بھی شامل تھا۔ اِس مطالبے کی بنیاد یہ تھی کہ شام کی طرف سے اِن شہروں کا محاصرہ کرنے کی وجہ سے شہری آبادی تک ضروری امداد پہنچانا مشکل ہے۔ دوسری شرط ہوائی حملوں کو روکنا تھا۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ پیشتر اپوزیشن کو سرکاری افواج پر برتری حاصل تھی۔ امریکہ اور اُس کے حلیف مُلکوں کو اُمیّد تھی کہ صدر بشارالاسد کی حکومت بس چند دونوں کی مہمان ہے۔
لیکن گزشتہ سال ستمبر میں رُوس کی فضائی مداخلت نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اپوزیشن جو پہلے ہی اتحاد سے خالی ایک غیر مربوط اور غیر موثر قوت تھی، اب تتّر بتّر ہو رہی ہے۔ رُوس کے فضائی حملوں نے صدر بشارالاسد کی پوزیشن کو مضبوط بنادیا ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سرکاری فوجیں مُلک کے سب سے بڑے شہر ''حلب‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہیں اور اِس کے علاوہ متعدد دیگر شہروں کا بھی محاصرہ جاری ہے۔ اپوزیشن شور مچا رہی ہے کہ ہوائی حملوں کی موجودگی میں مذاکرات کیسے ممکن ہیں لیکن گزشتہ پانچ برس کے تجربے نے امریکہ اور اُس کے حلیف ملکوں کو یہ سبق سکھایا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات کو اپنی پسند کی ڈگر پر نہیں چلا سکتے اور خِطے میں تیزی سے رُونما ہونے والی تبدیلیوں کے پِیش نظر مذاکرات کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں۔
ان مذاکرات کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں ایران پہلی دفعہ شرکت کر رہا ہے۔ ایران پر اِس کے جوہر ی پروگرام کے حوالے سے امریکہ ، پورپی ممالک اور اقوام ِ متحدہ کی جانب سے عائد پابندیوں کے اُٹھائے جانے کے بعد مشرقِ وُسطیٰ اور خلیجِ فارس کے خِطے میں ایران کے اثرورسوخ میں نمایاں اضافہ ہُوا ہے۔ اب اِن علاقوں میں کسی بھی سیاسی اور فوجی مسئلے سے ایران کو الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ مذاکرات میں ایران کو اِس لیے بھی شامل کیا گیا کہ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے شام کے مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اِس حل کے راستے میں اور بھی بہت سی روکاوٹیں ہیں جو اگرچہ ناقابلِ عُبور نہیں لیکن حتمی حل میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہیں۔ اِن میں دہشت گردی کی لگاتار وارداتیں ہیں۔ جِس دِن مذاکرات کا آغاز ہونا تھا، عین اُسی دِن دمشق میں حضر ت بی بی زینبؓ کے روضہ مبارک کے قریب خود کش حملوں میں 70سے زائد افراد شہید اور 100سے زیادہ زخمی ہُوئے۔ دہشت گردی کی اِن کارروائیوں کی ذمہ داری ''داعش‘‘ نے قبول کی ہے اور اِس کی طرف سے اِس قسم کے مزید خودکُش حملوں کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ اِس لئے اگر مذاکرات کی کامیابی کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا مقصود ہے تو سب سے پہلے ''داعش ‘‘ کی طرف سے دہشت گردی اور خودکُش حملوں کے خلاف کارروائی ہے جو ممالک شام میں جنگ بندی اور امن کے خواہاں ہیں اُنہیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ''داعش ‘‘ کے فتنے کی بیخ کُنی کیلئے بھرپُور کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔