"DRA" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر اور حکومتی پالیسی

رواں سال بھی یوم کشمیر کی تمام تقریبات کے موقع پر کی گئی تقریروں اور بیانات میں جو مطالبات پیش کیے گئے یا الفاظ استعمال کیے گئے، وہی ہیں جو ہم گزشتہ 68 برس سے سنتے آ رہے ہیں۔ البتہ مظفر آباد میں آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے مسئلہ کشمیر، پاک بھارت تعلقات اور جنوبی ایشیا کے مستقبل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ اپنی نوعیت اور سمت کے اعتبار سے نہ صرف روایت سے ہٹ کر ہیں، بلکہ دنیا خصوصاً ہمارے اردگرد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں انتہائی ضروری اور بروقت بھی ہیں۔ ان میں صرف بھارت اور اس کے رہنمائوں کے لیے ہی ایک پیغام پنہا نہیں ہے، بلکہ ان کی تقریر پاکستان کے اندر چند ایسے عناصر کے لیے بھی مفید مشوروں اور تجاویز سے بھری پڑی ہے، جو مسئلہ کشمیر کو بزورِ طاقت حل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی خوشحالی اور جنوبی ایشیا کے ارض کا مستقبل کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل سے وابستہ ہے، ایک ایسی ٹھوس حقیقت کی نشاندہی کی ہے، جسے اب بڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ پوری عالمی برادری بھی تسلیم کرتی ہے۔ گزشتہ68 برس میں پاکستان اور بھارت دو بڑی اور ایک محدود جنگیں لڑ چکے ہیں جن کا براہِ راست تعلق کشمیر سے ہے، لیکن مسئلہ حل ہونے کی بجائے، اور بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔ اس سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہو، یا پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی اور تنازع ہو، طاقت یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکیوں سے حل نہیں ہو سکتا۔ دونوں ملکوں کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد جنگ کا امکان اور بھی بعید ہو گیا ہے۔ کیونکہ روایتی ہتھیاروں کے استعمال پر مبنی جنگ ایک ایسی ایٹمی 
جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے‘ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی اب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی کی بجائے پرامن تعلقات اور تعاون کی خواہش مند ہے۔ ان میں پاکستان کا سچا اور مخلص دوست ملک چین بھی شامل ہے۔ 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر مبنی، چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے آغاز کے بعد نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ چین اور اس کے ساتھ اسی منصوبے سے مستفید ہونے والے جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بھی پاک، بھارت تعلقات میں امن اور تعاون کی اہمیت میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت موجودہ صورتِ حال ایک کڑے امتحان کی حیثیت رکھتی ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں دوسری اہم بات یہ کہی ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے کو جہاں دنیا کی کل آبادی کا 1/5 حصہ آباد ہے، ایک نئے ویژن کی ضرورت ہے اور پاکستان نے اپنی طرف سے اس ویژن کو پروان چڑھانے میں ہر طرح کی کوشش کی ہے۔ اس ویژن میں مرکزی حیثیت باہمی تنازعات کو پرامن اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے، تا کہ خطے کے مختلف ملکوں کے درمیان لوگوں اور سازو سامان کی آمد و رفت کے سامنے کھڑی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ یہ عجیب حقیقت ہے کہ جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں، دوطرفہ تجارت، معاشی تعلقات اور علاقائی تعاون کے لیے ذرائع مواصلات کو ترقی دی جا رہی ہے، وہاں جنوبی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے، جو ان تمام شعبوں میں پیچھے رہ گیا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ ایک دوسرے کے بارے میں دوستانہ اور بھائی چارہ کے جذبات پروان چڑھانے کی بجائے، نفرت اور بداعتمادی کی فضا کو تقویت دیناہے۔ ایسے رویوں کو ترک کر کے ایک نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی تقریر میں بظاہر بھارتی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تاریخ پکار پکار کر ہمیں کہہ رہی ہے کہ ہم آئندہ آنے والی نسلوں کی خاطر باہمی تنازعات حل کریں۔
پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور جنوبی ایشیا کے مستقبل کے بارے میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مواقع پر ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ان کی طرف سے اِن خیالات کو دہرانا خاص اہمیت کا حامل اقدام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مختلف شعبوں مثلاً تجارت، آمدورفت، سیاحت 
اور علاقائی تعاون کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر سمجھا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ جب تک کشمیر کا حتمی اور تسلی بخش تصفیہ نہیں ہو جاتا، پاک بھارت تعلقات پوری طرح نارمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن پاکستان کے اردگرد واقع ممالک کے مابین تعلقات میں گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران میں جس طرح ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کے پیش نظر یہ سوال جائز طور پر پوچھا جا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ نارمل تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے ساتھ کب تک منسلک رکھا جا سکتا ہے؟ کیونکہ گزشتہ تقریباً 68 سال کے دوران مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوششوں کے جائزہ سے جو سبق حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس مسئلہ کا جلد حل ممکن نہیں۔ اس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان حائل بد اعتمادی، شکوک و شبہات اور خوف کی ایک وسیع خلیج ہے۔ جسے پاٹنے کے لیے نہ صرف لگاتار کوششیں بلکہ وقت درکار ہے۔ کیا اس دوران میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ رہنے چاہئیں؟ دونوں میں کوئی تجارت نہ ہو اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے پر جو پابندیاں ہیں، وہ بھی قائم رہنی چاہئیں؟ عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے رجحانات کا تقاضا یہ ہے کہ باہمی تعلقات کو تنازعات کی بنیاد پر مستقبل طور پر منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے روابط قائم کیے جائیں، کیونکہ ان سے کشیدگی میں کمی آتی ہے اور آپس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تنازعات کے حل کے بارے میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جس سوچ کا ذکر کیا ہے، وہ مذکورہ بالا بین الاقوامی رجحانات کے عین مطابق ہے۔ اس میں وزیر اعظم صرف بھارت کی موجودہ قیادت سے ہی مخاطب نظر نہیں آتے، بلکہ ان کا ٹارگٹ پاکستان کے اندر موجود ایسے عناصر اور حلقے بھی ہیں جو بھارت کے بارے میں صرف ''نفرت اور انتقام‘‘ پر مبنی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اب اس قسم کی اپروچ کی کوئی گنجائش نہیں۔ نہ ہی مملکت پاکستان ایسے عناصر کو کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ویٹو کا حق دے سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں گزشتہ تین دہائیوں سے کچھ ایسے ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ نے اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو اپنی سوچ اور نظریے کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ ان عناصر کی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہو رہی ہے۔ جس طرح یہ عناصر ملک کے اندر دندناتے پھرتے ہیں اور پاکستان کی پرامن خارجہ پالیسی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی وجہ سے دہشت گردوں کے ہاتھوں 50ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے کر اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھا کر بھی، پاکستان پر باہر سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی اس سوچ کو رد کر دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ دونوں ملکوں کو اپنے عوام اور خطے کی بھلائی اور مستقبل کا خیال رکھنا چاہیے۔ دونوں پر تاریخ کی طرف سے ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کو تصادم اور کشیدگی سے محفوظ رکھیں۔ اس کے لیے باہمی تنازعات کو حل کرنا ضروری ہے تا کہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل کے حل اور خوشحالی کے فروغ پر مبذول کرا سکے۔ اس کے لیے ایک ایسی سوچ اور رویہ لازم ہے جس میں باہمی روابط‘ میل جول اور تعاون کو اولین ترجیح دی جائے اور سازگار ماحول کو قائم رکھتے ہوئے تمام دوطرفہ تنازعات کے حتمی حل کی طرف قدم بہ قدم آگے بڑھا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں