گزشتہ دِنوں آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی حالات غیر معمولی کشیدگی کا شکار رہے۔وجہ اِس کی آزاد کشمیر میں موجودہ برسرِ اقتدار پارٹی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعت ، پاکستان مُسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان 13فروری کو کوٹلی کے علاقہ نکیال میں تصادم تھا ۔
اپنے ایک کارکُن کی ہلاکت پر آزاد کشمیر پیپلز پارٹی نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔ ریاست میں تین دِن سوگ منانے کا اعلان کیا۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران نے بھی آزاد کشمیر میں اپنے ساتھیوں کی حمایت میں بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور اسمبلی سے واک آئوٹ کر کے احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی نے حالات کی خرابی اور تصادم کی ساری ذمہ داری پاکستان مُسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء برجیس طاہر، پرویز رشید اور وزیراعظم کے سیاسی مشیر آصف سعید کرمانی پر ڈال دی اور الزام لگایا کہ وفاقی حُکومت کے اِن رہنمائوں نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نہ صرف حالات کو خراب کیا، بلکہ اپنے کارکنوں کو تشددّ پر اُکسایا جِس کی وجہ سے یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔
لیکن دوسری طرف وفاقی وزراء نے اپنے اُوپر الزامات کی تردید کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی موجودہ حُکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اُن کے بیانات کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کی پاکستان کی وفاقی وزراء کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں سے لیگی کارکُن مشتعل ہُوئے جِس کے نتیجے میں تصادم کا واقعہ پیش آیا۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے اِس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے جو تصادم کی وجوہات معلوم کر کے، ذمہ دار فریقین کی نشاندہی کرے گا لیکن جُون میں ہونے والے لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات کیلئے اِس واقعہ نے ایک انتہائی ناخوشگوار کیفیت پیدا کر دی ہے جو نہ صرف آزاد کشمیر کے عوام بلکہ کشمیر کاز کیلئے بھی نقصان دِہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر کے مخصوص سیاق و سباق میں، آزاد کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اِسے آزاد کشمیر کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اِس کے پیش نظر حکُومت پاکستان اور پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو آزاد کشمیر کے بارے میں محتاط روّیہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ آزاد کشمیر میں ہر سیاسی اقدام پر بھارت کی نظر ہے اور جہاں کہیں اِسے جھول نظر آئے گی، بھارتی حکُومت اِس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گی۔
اِس امکان کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں نے تقریباً ہر دور میں آزاد کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کے بارے میں مجرمانہ غفلت کا ثبوت دِیا ہے۔ مثلاً بہت کم لوگ اِس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے ایک بنیادی جمہوری حق یعنی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کو براہ راست چننے کے حق سے 1970ء تک محروم رہے۔ 1968-70ء میں ایوب خان کے صدارتی نظام کے خلاف جب مُلک گِیر عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں پارلیمانی نظام بحال ہُوا، تو آزاد کشمیر میں بھی 1974ء میں پارلیمانی نظام حکُومت رائج کر دیا گیا۔ اُس وقت سے آزاد کشمیر لیجسلیٹو اسمبلی کے اراکین کا انتخاب براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وزیراعظم کو اسمبلی کے اراکین منتخب کرتے ہیں اور وہ ریاست کا چیف ایگزیکٹو جبکہ صدر محض رسمی اختیارات کا مالک ہے۔ ایوب خان نے پاکستان کی طرز پر آزاد کشمیر میں بھی صدارتی نظام حکُومت رائج کر دیا تھا جِس کے تحت صدر کا انتخاب بنیادی جمہوری اداروں کے ممبران کے ذریعے عمل میں آتا تھا۔
پاکستانی موقف کے مطابق چونکہ مسئلہ کشمیر ابھی تک تصفیہ طلب ہے اور اِس کی وجہ سے آزاد کشمیر کی قانونی حیثیت ابھی حتمی نہیں ، بلکہ عارضی ہے، اِس لئے ایک عرصہ تک آزاد کشمیر کی سیاست کو پاکستانی سیاست سے علیحدہ رکھا گیا۔ اِس پالیسی کے تحت کافی عرصہ تک پاکستان میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کو آزاد کشمیر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مُسلم کانفرنس کے سابق رہنما اور آزاد کشمیر میں صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر کئی بار فائز رہنے والے کشمیری لیڈر سردار عبدالقیوم اِس اصول کے بڑے حامی تھے کہ آزاد کشمیرکی سیاست کو پاکستانی سیاست سے الگ رکھا جائے ۔ بصورتِ دیگر اُن کے خیال میں کشمیر کاز کو نقصان پہنچنے کا امکان تھا۔
آزاد کشمیر کی سیاست پر آہستہ آہستہ اُن سیاسی پارٹیوں کو بالادستی ہو رہی ہے، جن کی جڑیں آزاد کشمیر کی بجائے پاکستان میں ہیںمثلاً 2011ء کے اسمبلی انتخابات میں پی۔پی۔پی اور ن لیگ کی بالترتیب 30اور 11نشستوں کے مقابلے میں مسلم کانفرنس صرف 5نشستیں حاصل کر سکی تھی۔ پاکستان میں مقیم اِن سیاسی پارٹیوں کی قیادت آزاد کشمیر میں سرگرم اپنی پارٹیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں آزاد کشمیر کی سیاست خصوصاً انتخابی سیاست کو اسلام آباد ، لاہور یا کراچی سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ 13فروری کو نکیال میں جو حادثہ ہُوا، وہ اِسی سیاست کا شاخسانہ ہے۔
مُسلم لیگ (ن) گزشتہ اسمبلی
انتخابات میں گیارہ نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کی 30نشستوں کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ اِس دفعہ ن لیگ کا خیال ہے کہ اُس کا پہلا نمبر ہو سکتا ہے کیونکہ وزیراعظم چودھری عبدالمجید کی حکُومت اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے غیر ہر دلعزیزی کی اتھاہ گہرائیوں تک گِر چُکی ہے اور مرکز میں برسرِ اقتدار ہونے کی وجہ سے وہ حسبِ دستور آزاد کشمیر کی سیاست پر بآسانی اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن ن لیگ کو اصل خطرہ پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ عمران خان کی پی ٹی آئی کی اُبھرتی ہوئی قوت سے ہے۔ اِس اُبھرتی ہوئی قوت کا مظاہرہ گزشتہ برس میر پور کے ضمنی انتخاب میں ہُوا تھا، جِس میں پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر سلطان محمُود نے اپنے مدِمقابل چودھری محمد اشرف کو 3000ووٹوں سے شکست دی تھی حالانکہ چودھری محمد اشرف کو پیپلز پارٹی اور پاکستان مُسلم لیگ (ن) دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ غالباً اِسی وجہ سے ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے دو وفاقی وزراء اور ایک مشیر پر مشتمل لڑاکا دستے کو آزاد کشمیر فتح کرنے کیلئے بھیجا تھا۔ لیکن میرے خیال میں یہ ایک فاش غلطی تھی۔ کاش وفاقی حکُومت ہمسایہ مُلک بھارت اور خُود مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حالات سے سبق سیکھنے کی کوشش کرتی ۔ گزشتہ برس بہار میںبی جے پی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ریاست میں انتخابی مہم کی باگ ڈور بہار سے باہر کے لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں سیاسی حالات اُس وقت خراب ہونا شُروع ہوئے جب اندراگاندھی کے زمانے میں کانگرس نے ریاست کی سیاست میں بالادست ہونے کی کوشش کا آغاز کیا ۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اگر آزاد کشمیر کے عوام اور کشمیر کاز سے ہمدردی ہے تو اُنہیں ریاست کی سیاست کو باہر سے کنٹرول کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہئے۔