اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد پاکستان نے بھی اُن تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جن کی وجہ سے ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ اس اہم اعلان کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت کے فروغ کے واضح اور روشن امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ عالمی اقتصادی پابندیوں سے قبل ایران‘ پاکستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دارتھا مثلاً 2008 ء اور 2009ء میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بالترتیب ڈیڑھ اور ایک ارب 21کروڑ ڈالر تھی جو 2014 ء میں گھٹ کر صرف22کروڑ90لاکھ ڈالر رہ گئی۔ اس میں بھی بھاری مالیت ایران سے درآمدات پر مشتمل تھی۔
لیکن پاکستان کے تازہ ترین فیصلے سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت میں تیزی کے ساتھ اضافے کا امکان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کے بعد پاکستان کی سب سے طویل بین الاقوامی سرحد ایران کے ساتھ ہے جس کے آرپار قیام پاکستان سے بھی قبل صدیوں سے تجارت ہوتی رہی ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا 80 فیصد سے زائد حصہ ابھی تک مغربی یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ رہا ہے‘ لیکن 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کو علاقائی تجارت کا رُخ مغربی ایشیائی ممالک کی طرف موڑنا پڑا تو اس کے جواب میں سب سے زیادہ حوصلہ افزا تعاون ایران کی طرف سے پیش کیا گیا۔ ایران کے اس دوستانہ اقدام کی وجہ سے 1970ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاک‘ ایران دوطرفہ تجارت کا حجم گیارہ گنا بڑھ گیا تھا۔ 1971ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے پاکستان جن معاشی مشکلات سے دوچار ہوا تھا اُن پر قابو پانے میں ایران کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی تجارتی رعایات نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1982ء میں پاکستان نے جب ایران سے پٹرولیم خریدنا شروع کیا تو دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت میں مزید اضافہ ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں ایران کے ساتھ پاکستان کی دوطرفہ تجارت خصوصاً ایران کو پاکستانی برآمدات میں اور بھی اضافہ ہو سکتا تھا‘ لیکن ایران عراق جنگ اور امریکی دبائو کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق نے ایران کو پاکستان کی طرف سے ضروری اشیا خاص طور پر خوراک اور اناج کی فراہمی پر پابندیاں لگا دیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کی سطح بہت نیچے آ گئی۔ بلکہ سیاسی شعبے میں بھی تعلقات متاثر ہوئے۔
عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت کے ایک نئے اور خوشگوار دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد معاہدات کی شکل میں پہلے سے ہی ایک فریم ورک موجود ہے۔ دونوں نے(Preferential Trade Agreement) پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان زرعی اجناس سے خوراک تیار کرنے اور ریل‘ سڑک اور سمندر کے راستے روابط بڑھانے کے لیے بھی متعدد اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس اپریل میں اسلام آباد میں پاک‘ ایران مشترکہ ٹریڈ کمیٹی کا ساتواں اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد رضا مہمت زادے نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو پانچ بلین ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے لیے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ امید ہے کہ پاکستان کی طرف سے ایران کے ساتھ تجارت پر سے تمام پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد دونوں ملکوں کی دوطرفہ تجارت میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کھلنے سے دونوں ملکوں کو نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم فوائد حاصل ہوں گے بلکہ سیاسی شعبے میں بھی باہمی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو گی۔ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان غیر رسمی تجارت یعنی سمگلنگ کا کاروبار جاری ہے۔ سرکاری طور پر تجارت کے آغاز سے سمگلنگ روکنے میں مدد ملے گی۔ اگرچہ ماضی میں دوطرفہ تجارت میں توازن ایران کے حق میں رہا ہے یعنی ایران کو
پاکستان سے برآمدات کے مقابلے میں ایران سے پاکستان کی درآمدات زیادہ رہی ہیں تاہم اس دفعہ ایران کو پاکستانی برآمدات میں اضافے یعنی توازن تجارت کا پاکستان کے حق میں بہتر ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے زیادہ دیر تک زیر رہنے کی وجہ سے ایران میں بیرونی سرمایہ کاری اور تعمیر و ترقی کا عمل رُکا ہوا تھا۔ اب پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد اس میں تیزی آئے گی۔ اس کی وجہ سے ایران کی منڈی میں نہ صرف پاکستانی اجناس‘ مصنوعات بلکہ افرادی قوت کی طلب بھی بڑھ جائے گی۔ اس کا پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔ ایران‘ پاکستان گیس پائپ لائن پر دوبارہ کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت کا آغاز‘ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری محض پاکستان اور چین کے درمیان ایک دوطرفہ معاہدے پر مبنی نہیں بلکہ اس کے علاقائی اور عالمی پہلو بھی ہیں۔ پاکستان اور چین کے علاوہ جن دیگر علاقائی ممالک کو بھی اس میں شریک یا وابستہ ہونے کا موقعہ ملے گا ان میں افغانستان‘ وسط ایشیائی ریاستیں اور ایران بھی شامل ہے۔ ایران پہلے ہی اس منصوبے میں اپنا حصہ ڈالنے پر رضامندی کا اظہار کر چکا ہے بعض ماہرین کے مطابق اس راہداری منصوبے کا دائرہ بڑھا کر خلیج فارس کے ساحل پر واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر پر مشتمل سپیشل اکنامک زون قائم کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اسے موجودہ سطح سے کہیں زیادہ اوپر تک لے جایا جا سکتا ہے‘ اس تجارت کو ابھی تک اس کی پوری گنجائش کے مطابق ترقی نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت ابھی فرسودہ طریقوں سے ہو رہی ہے۔ جدید سڑکوں‘ ریل اور دیگر زمینی رابطوں کی کمی ہے۔ اگر ایران اور پاکستان اپنی دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے بینکنگ سیکٹر اپنا کردار ادا کریں۔ سڑکوں کی حالت بہتر بنائیں اور سب سے بڑھ کر سمگلنگ کی روک تھام کریں۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کو سرحدی انتظامات کا نظام بہتر بنانا پڑے گا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان بلاروک ٹوک تجارت سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشتوں پر خوشگوار اثر پڑے گا‘ بلکہ علاقائی امن‘ استحکام اور سلامتی کے شعبوں میں بھی نمایاں کامیابی حاصل ہو گی۔ کیونکہ ایران‘ مغربی ایشیا اور خلیج فارس کا انتہائی اہم ملک ہے۔ تجارت کے ذریعے جنوبی ایشیا کے ایک اہم ملک یعنی پاکستان کے ساتھ روابط کے فروغ سے دنیا کے دو بڑے خطوں یعنی جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا کے درمیان براہ راست رابطہ پیدا ہو گا۔ اس سے ایشیائی ملکوں میں علاقائی تعاون اور مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کے قدیم راستوں کو ازسر نو بحال کرنے کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو گی۔ اس عمل کی کامیابی سے نہ صرف معاشی خوشحالی آئے گی‘ بلکہ دونوں برادر مسلم ہمسایہ ملکوں کے درمیان خیرسگالی اور تعاون کا ماحول بھی پیدا ہو گا۔