مشترکہ مفادات کی کونسل کے اسلام آباد میں 29 فروری کے اجلاس میں ملک کی چھٹی مردم شماری کو ایک بار پھر موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ تو غیر متوقع ہے اور نہ ہی حیران کن۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے گزشتہ سال کے فیصلے کے باوجود کہ ملک کی چھٹی مردم شماری مارچ 2016ء میں کروائی جائے گی، اس نوع کی خبریں عام تھیں کہ حکومت چھٹی مردم شماری کو جو پہلے ہی اٹھارہ سال لیٹ ہے‘ ملتوی کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ پاکستان کی گزشتہ مردم شماری 1998ء میں ہوئی اور وہ بھی17 سال کے وقفے کے بعد یعنی اپنے مقررہ وقت سے سات سال تاخیر سے۔ پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی تھی اور یہ واحد مردم شماری تھی جو اپنے مقررہ وقت پر کی گئی۔ اس کے بعد ہر مردم شماری کسی نہ کسی بہانے ملتوی کی جاتی رہی؛ حالانکہ ہر دس سال بعد نئی مردم شماری کا کروانا لازمی ہے۔ لیکن مختلف مسائل آڑے آتے رہے اور مردم شماری کا مرحلہ ملتوی ہوتا رہا۔ مثلاً 1960ء کی دہائی میں مردم شماری کا انعقاد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور نمائندگی کے جھگڑے کی نذر ہوتا رہا۔1981ء کی مردم شماری کے بعد نئی مردم شماری 1991ء میں ہونا چاہیے تھی، لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ 1990ء کی دہائی میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے درمیان سخت محاذ آرائی کی کیفیت تھی۔ دونوں کا ایک دوسرے پر شک تھا کہ وہ اپنے دور میں مردم شماری کروا کر مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ شک بے جا بھی نہیں تھا کیونکہ 1981ء کی مردم شماری میں سنگین بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ملک خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں آبادی کے تناسب سے متعلق
اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے متعدد ہتھکنڈے استعمال کئے تھے۔ پاکستان میں صوبوں اور مرکز کے درمیان بد اعتمادی کی جو فضا پائی جاتی ہے اُس کے پیدا کرنے میں1981ء کی مردم شماری کے دوران اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی بے ضابطگیوں کا بڑی حد تک دخل ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر 1998ء کی مردم شماری بھی بہت متنازع تھی۔ اس مردم شماری کے دوران نہ صرف بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا بلکہ مردم شماری کے دوران اکٹھی کی جانے والی معلومات اور اعداد و شمار کی صحت کو چیک کرنے کے لیے مردم شماری کے بعد جس سروے اور ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1998ء کی مردم شماری کے دوران سندھ اور بلوچستان سے کئی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ بعض علاقوں میں مردم شماری سرے سے نہیں ہو سکی تھی۔ اس کی وجہ سکیورٹی کا ناقص انتظام اور بعض بلوچ اور سندھی علاقوں میں مردم شماری کا بائیکاٹ بتایا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر 1998ء کی مردم شماری متنازع بنی رہی اور صوبے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ صوبوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ چھٹی مردم شماری میںصوبوں کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ مطالبہ حال ہی میں کراچی میں ہونے والی ایک کل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس کے علاوہ صوبوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کروائی جائے کیونکہ ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر پاکستانی وفاق میں شامل صوبے مرکز پر پوری طرح اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
لیکن ملک کی موجودہ سکیورٹی صورت حال کے پیش نظر فوج مطلوبہ تعداد میں افرادی قوت فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں مردم شماری کے کام کو نمٹانے کے لیے 3 لاکھ 75ہزار فوجی جوانوں کی ضرورت ہے۔ لیکن حکومت کے ذرائع کے مطابق فوج اتنی تعداد میں افرادی قوت فراہم نہیں کر سکتی۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے حالیہ اجلاس میں غالباً اسی بنا پر مارچ میں مردم شماری کے اعلان کردہ انعقاد کو موخر کیا گیا ہے۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکز کے اتفاق سے مردم شماری کو غیر معینہ مدت کے لیے موخر کیا جاتا ہے اور آئندہ مردم شماری چاروں صوبوں اور فوج کے درمیان اتفاق رائے کی بنیاد پر منعقد کی جائے گی۔ خیال ہے کہ مردم شماری اس سال موسم گرما سے پہلے نہیں ہو سکتی کیونکہ خانہ پُری کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ موسم گرما کی چھٹیوں میں جب سکول بند ہوںگے تو فوج کے جوانوں‘ افسروں اور اساتذہ پر مشتمل عملے کی مدد سے مردم شماری کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی طرف سے اصرار تھا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے کیونکہ صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت‘ اپنی براہ راست نگرانی میں ایک صاف شفاف اور درست اعداد و شمار پر مبنی مردم شماری کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ حالانکہ 1981ء تک پاکستان میں مردم شماری فوج کے بغیر کروائی جاتی رہی ہے۔ 1981ء کی مردم شماری میں اتنی بے ضابطگیاں کی گئیں تھیں کہ اگلی مردم شماری نہ صرف سات برس تاخیر سے ہوئی بلکہ اس میں پہلی مرتبہ گھر گھر جا کر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے فوج کے جوانوں اور افسروں کو تعینات کرنا پڑا۔ اس تاخیر اور تنازع کی اصل وجہ یہ تھی کہ افغانستان سے لاکھوں افراد ہجرت کر کے پاکستان کے دو صوبوں یعنی بلوچستان اور کے پی کے (سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبہ) میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ اُن میں سے بیشتر نے اپنے آپ کو ووٹنگ لسٹ میں شامل کر لیا تھا۔ کچھ حلقے انہیں بھی پاکستان کی آبادی کا حصہ بنانا چاہتے تھے تاکہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں۔ مقامی آبادی کی طرف سے اس کی مخالفت کی جا رہی تھی۔ اسی طرح سندھ میں لسانی بنیادوں پر سندھی اور اردو بولنے والے گروپوں کے درمیان چپقلش تھی۔ ہرگروپ نہ صرف مالی وسائل کی تقسیم میں اپنا حصہ بلکہ اسمبلیوں کے انتخابات میں اپنی نشستیں بڑھانے کے لیے اپنی آبادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب بھی یہ مسائل موجود ہیں اور ان کی وجہ سے مردم شماری کا عمل نہ صرف پیچیدہ بلکہ حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ کونسل کے حالیہ اجلاس میں مردم شماری کو موخر کرنے کی ایک یہ بھی بڑی وجہ تھی۔
لیکن مردم شماری کا التوا اچھی خبر نہیں‘ کیونکہ مردم شماری آبادی‘ پیشے‘ تعلیم‘ صحت‘ رہائش‘ خوراک‘ بنیادی ضروریات اور انہیں پورا کرنے کے لیے وسائل کی صورت میں ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر طویل المیعاد منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اگر مردم شماری وقت پر نہ ہو یا اس کے انعقاد میں غیر معمولی تاخیر ہو تو صحیح منصوبہ بندی ممکن نہیں۔ ماضی میں مردم شماری کو وقت پر نہ کروا کے ملک پہلے ہی کافی نقصان اٹھا چکا ہے۔ مزید تاخیر کی صورت میں قوم بدستور غیر یقینی اور کنفیوژن کا شکار رہے گی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر ممالک کے برعکس مردم شماری کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دیگر ممالک خصوصاً ترقی یافتہ دنیا میں مردم شماری کو نہ صرف منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے عمل میں کلیدی حیثیت کا مالک تصور کیا جاتا ہے بلکہ معاشیات‘ سیاسیات‘ ڈیمو گرافی‘ سائنس‘ تعلیم‘ صحت اور ماحولیات جیسے شعبوں میں گہری تحقیق کے لیے انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل سے صحیح نتائج اور معلومات حاصل کرنے کے لیے مردم شماری کو بڑی سائنٹیفک بنیادوں پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے عارضی طور پر افرادی قوت کا اہتمام کرنے کے علاوہ مستقل سٹاف کی بھی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ ہمارے ہاں مردم شماری کے لیے اس وقت تیاری شروع کی جاتی ہے جب حکومت فیصلہ کر کے مردم شماری کروانے والے وفاقی ادارے کو ہدایت جاری کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہاں باصلاحیت‘ پیشہ ور اور تجربہ کار عملے کی ہمیشہ کمی رہتی ہے۔ مردم شماری میں تاخیر اور اس کے نتیجے میں غلط اعداد و شمار کا سبب یہی عنصر ہے۔