افغان طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ کابل حکومت سے براہ راست بات چیت میں حصہ نہیں لیں گے اور اس سلسلے میں اْنہوں نے اپنے کسی نمائندے کو مقرر نہیں کیا۔ یہ بیان اْس وقت جاری کیا گیا جب افغانستان کے مسئلے سے براہ راست وابستہ حلقوں میں طالبان اور افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے درمیان جلد مذاکرات کی توقع کی جا رہی تھی۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ سال پاکستان (مری) میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندے بھی مبصر کی حیثیت سے موجود تھے۔ اجلاس میں بات چیت کافی حد تک حوصلہ افزا رہی تھی‘ اور اس کے خاتمہ کے بعد امید ظاہر کی گئی تھی کہ اگلا اجلاس جلد منعقد ہو گا‘ لیکن عین اس موقع پر افغانستان میں تحریک طالبان کے بانی ملا عمر کی دو سال قبل ہونے والی وفات کے انکشاف نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی فضا ایک دفعہ پھر مکدّر کر دی اور مذاکرات کا یہ دوسرا دور منعقد نہ ہو سکا۔ تاہم ان مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اس جانب سب سے اہم پیش رفت گزشتہ دسمبر میں ہوئی جب اسلام آباد میں ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے موقع پر پاکستان، امریکہ، چین اور افغانستان پر مشتمل ایک چار فریقی رابطہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد افغانستان میں جاری موجودہ خانہ جنگی کے خاتمہ کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ رابطہ کمیٹی کے اسلام آباد اور کابل میں کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ ان اجلاسوں میں چاروں ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی‘ اور آئندہ بات چیت کے لئے چند اصولوں پر مشتمل ایک فریم ورک پر اتفاق کیا گیا تھا۔ رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد امید ظاہر کی جارہی تھی کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت میں موجودہ تعطل ختم ہو جائے گا‘ اور فریقین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جلد ہی شروع ہو جائے گا۔ اس کے بارے میں حوصلہ افزا بیانات جاری کرنے والوں
میں وزیر اعظم کے مشیر برائے اْمور خارجہ سرتاج عزیز بھی شامل تھے۔ اْن کے مطابق افغان مذاکرات کا دوسرا دور ایک دو ہفتوں میں شروع ہو جائے گا۔ 3 مارچ کو اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی اس قسم کی امید کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ افغان طالبان مذاکرات جلد ہوں گے‘ اور یہ پاکستان میں منعقد ہوں گے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق گزشتہ ماہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اس مقصد کے لئے قطر کا دورہ کیا تھا‘ جہاں اْنہوں نے مقیم طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کرکے اْنہیں بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اْس دن پشاور میں پاکستان میں تعینات افغانستان کے نئے سفیر حضرت عمر زخالی وال نے اپنے ایک بیان میں اس سے بھی زیادہ ٹھوس اور پُرامید بیان دیا تھا۔ اْنہوں نے کہا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہفتوں میں نہیں بلکہ دِنوں میں ہو گا‘ لیکن طالبان کی طرف سے انکار پر مبنی بیان نے ان تمام اْمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے جس اْمید کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ کم از کم فوری طور پر بلکہ مستقبل قریب میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
ایک رائے یہ ہے کہ طالبان کا یہ موقف عارضی ہے اور وہ جلد ہی مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس اْمید کا اظہار کابل میں صدر اشرف غنی نے ایک بیان میں کیا۔ اْنہوں نے کہا ہے کہ طالبان جلد ہی اپنے موقف میں تبدیلی لانے اور مذاکرات میں شامل ہونے پر راضی ہو جائیں گے کیونکہ مذاکرات میں سب کا بھلا ہے اور طالبان زیادہ دیر تک اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ صدر اشرف غنی کے مطابق مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ان کا انعقاد ناگزیر ہے۔
دیگر حلقوں اور مبصرین میں سے بھی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار اور چند پیشگی شرائط کا اعلان دراصل آئندہ مذاکرات میں طالبان کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ اس وقت افغانستان میں جاری جنگ میں طالبان کا پلڑا بھاری ہے اور وہ مذاکرات کے انعقاد سے قبل افغانستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو زیرنگیں لا کر مذاکرات کے میز پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تاکہ افغانستان کے آئندہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں وہ نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔ اس رائے کو اس بات سے بھی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ طالبان نے مذاکرات میں شرکت کے لئے اپنے تازہ ترین بیان میں صرف تین شرائط کا ذکر کیا ہے: افغانستان سے امریکی افواج نکل جائیں۔ افغان فورسز کی مدد کے لئے امریکی ہوائی حملوں کو بند کیا جائے‘ اور اقوام متحدہ اور امریکہ نے جن طالبان رہنمائوں کو دہشت گرد قرار دے کر اْن پر پابندیاں عائد کی ہیں اْنہیں ختم کیا جائے اور گرفتار طالبان رہنمائوں کو رہا کیا جائے۔ اس سے قبل افغان طالبان کی طرف سے جو شرائط پیش کی جاتی تھیں‘ اْن میں افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی صورت میں
براہ راست حصہ لینے سے صاف انکار شامل ہوتا تھا کیونکہ افغان طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کو ایک کٹھ پْتلی حکومت قرار دیتے ہیں‘ جو غیر ملکی ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ افغان طالبان کے مطابق افغانستان میں اصل طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ صرف امریکہ سے ہی قیام امن کے لئے بات چیت کریں گے۔
افغان طالبان کے تازہ ترین موقف میں اب افغان حکومت کو ایک ناجائز حکومت قرار دے کر بات چیت سے انکار نہیں کیا جاتا بلکہ گزشتہ سال جولائی میں مری میں افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افغان طالبان کابل حکومت کو بالواسطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ اس طرح افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ پہلے ہی دور ہو چکی ہے؛ چنانچہ صدر اشرف غنی کا یہ بیان کہ افغان طالبان کی طرف سے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کے باوجود مذاکرات کا امکان ختم نہیں ہوا‘ اور طالبان جلد ہی بات چیت کے لئے تیار ہو جائیں گے، کافی حد تک باوزن اور حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان، چین اور امریکہ نے بھی اپنے ردِعمل میں اْمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘ بلکہ طالبان کی طرف سے انکار پر مبنی بیان آنے کے بعد بھی مذاکرات بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ فلپ ہیمنڈ کا حالیہ دورہ پاکستان انہی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ،چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان ملاقاتوں میں اگرچہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے پر تبادلہ خیال ہوا؛ تاہم خطے کی صورت حال پر خصوصی طور پر غور کیا گیا۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ پاکستان کو افغانستان اور بھارت سے مل کر جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کا دورہ کرنے سے قبل برطانوی سیکرٹری خارجہ نے کابل کا دورہ کیا تھا‘ جہاں اْنہوں نے افغان حکومت کے اعلیٰ تین عہدے داروں‘ بشمول صدر اشرف غنی کے ساتھ علاقے خصوصاً افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پاکستان، چین اور افغانستان کے برعکس افغان طالبان کی طرف سے مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کے بیان پر امریکی ردِعمل میں زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے انکار سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی طرف سے افغان فوج اور سکیورٹی فورسز کی تربیت جاری رہے گی اور اس مقصد کے لئے امریکی فوج کا دس ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل دستہ افغانستان میں موجود رہے گا۔ امریکی جرنیل بھی 2016ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے حق میں ہیں۔ امریکہ کے اس بیان میں افغان طالبان کے لئے ایک تنبیہ بھی ہے کہ اْن کی طرف سے مذاکرات میں شرکت سے انکار کی وجہ سے افغانستان میں جنگ تیز ہو سکتی ہے اور اس میں امریکہ افغان فوج کی بھرپور مدد کرے گا۔
ایسی صورت حال میں نہ صرف افغانستان میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا بلکہ اس کے شعلے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اگر افغان طالبان مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے انکار پر مْصر رہے تو افغان فوج اور امریکہ کی طرف سے طالبان پر فوجی دبائو میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پاکستان پر پہلے ہی طالبان کو درپردہ مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جا چکا ہے۔ مشیر اْمور خارجہ سرتاج عزیز پاکستان کی سرزمین پر طالبان کی موجودگی کا اعلانیہ اعتراف کر چکے ہیں۔ افغانستان میں جنگ تیز ہونے کی صورت میں نہ صرف امریکہ اور افغانستان‘ بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان پر طالبان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے اور اْنہیں اپنے ہاں پناہ دینے کے لئے دبائو میں اضافہ ہو گا۔