تین مارچ کو کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال اور اْن کے ساتھی ایم کیو ایم کے سابق رہنما انیس قائم خانی کی آمد اور مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور قومی معیشت کے اعصابی مرکز کراچی کا سیاسی مستقبل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں شدت سے زیرِ بحث چلا آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف کراچی بلکہ صوبہ سندھ کے دیگر شہری مراکز میں بھی سب سے زیادہ ہردلعزیز اور مضبوط پارٹی رہی ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیوایم 48 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے۔ قومی اسمبلی میں23 نشستوں کے ساتھ ایم کیو ایم ملک کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں ایم کیو ایم نے نہ صرف سندھ بلکہ قومی سطح پر بھی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء دور کے بعد جب 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر اْبھری تھی تو ایم کیو ایم محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔ نومبر 1989ء میں اس حکومت کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد پیش ہونے سے قبل ایم کیو ایم نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ 1990ء کے انتخابات کے بعد محمد نوازشریف کی قیادت میں قائم ہونے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت میں ایم کیو ایم شامل تھی۔ اسی طرح2008ء کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم نہ صرف مرکز میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ تھی بلکہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ صوبائی حکومت میں شامل تھی۔ تاہم 2013 ء کے انتخابات کے بعد پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم نہ تو مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کا حصہ ہے اور نہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں شامل ہے، بلکہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں یہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے۔ اس تمام اْتار چڑھائو کے باوجود مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر ایم کیو ایم کی سیاسی اہمیت میں کمی نہیں آئی۔ اس کی بڑی وجہ اس پارٹی کی تنظیم،ڈسپلن اور سب سے بڑھ کر اس کے بانی الطاف حسین کی گرفت ہے۔ لیکن اب یہ گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آرہی ہیں کیونکہ مصطفی کمال جو کراچی کے میئر اور سینٹیر رہ چکے ہیں اور اْن کا الطاف حسین کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا،کی صورت میں الطاف حسین کی قیادت کو ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت اس وقت مکمل کنفیوژن کا شکار ہے، اْسے سمجھ نہیں آتی کہ موجودہ چیلنجوں سے کس طرح نمٹا جائے۔ ایک طرف رینجرز کا دبائو ہے، ایم کیو ایم کے عام کارکنوں سے لے کر سینئر ترین لیڈر گرفتار کیے جارہے ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم جو ماضی قریب میں پیپلز پارٹی سے ذرا سی بات پر ناراض ہوکر مخلوط حکومت سے نکل جانے کی دھمکی دے کر سندھ اور مرکز دونوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو لرزہ براندام کردیتی تھی اور جس کے ایک اشارے پر پورا شہر بند ہوجاتا تھا، اب ڈھائی سال سے رینجرزکا دبائو خاموشی سے برداشت کر رہی ہے۔
مصطفی کمال اور ان اْن کے ساتھیوں کی جانب سے الطاف حسین کی قیادت پر جو وار کیا گیا ہے اْس کا جواب دینے کے لئے ایم کیو ایم کے پاس کوئی موثر ہتھیار نہیں، اس لیے اب یہ بات متفقہ طور پرسامنے آ رہی ہے کہ کراچی کی مہاجر سیاست اب دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور تقسیم کی یہ لکیر وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہری ہوتی جائے گی۔یہ صورت حال اپنی جگہ درست لیکن مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی جانب سے الطاف حسین کی قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کیے جانے کے بعد صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں لوگوں کے ذہنوں میں دو اہم سوالات نے جنم لیا ہے۔ ایک یہ کہ مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی پْشت پر کون ہے اورکیا وہ الطاف حسین کا متبادل ثابت ہوں گے؟ ان سوالات کے اگرچہ ابھی تک تسلی بخش جوابات سامنے نہیں آئے تاہم 3مارچ سے اب تک ہونے والے واقعات کو اگر صحیح تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے، تو صورتِ حال کافی واضح نظر آناشروع ہو جاتی ہے۔ مصطفی کمال کی آمد سے قبل ہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے کارکنان ریاستی قوتوں کے دبائو کا شکار تھے۔ یہ دبائو ہمیں گزشتہ برس نائن زیرو پر چھاپے اور اس کے دوران ایم کیو ایم کے متعدد سینئر رہنمائوں کی گرفتاری اور لندن میں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں حکومت پاکستان کی غیر معمولی دلچسپی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث اور مطلوب دوافراد کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ بعد میں لندن پولیس اور سکاٹ لینڈ یارڈ کو پاکستان میں ان دونوں افراد سے پوچھ گچھ کرنے کی سہولت بھی مہیا کی گئی۔ الطاف حسین کی تقریروں اور ٹی وی چینلز پر اْن کی تصویر پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی خفیہ ایجنسی''را‘‘کے ساتھ اْن کے نہ صرف رابطوں بلکہ رقوم وصول کرنے کے ثبوت کی تشہیر کی گئی۔ ان سب اقدامات کا صرف ایک مقصد تھا۔۔۔۔کراچی کی شہری اور اْردو بولنے والی آبادی کو الطاف حسین سے دور کرنا تاکہ ایک تیسری سیاسی قوت کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کی جاسکے۔ لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔NA-246 کے ضمنی انتخاب اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ اْردو بولنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اب بھی الطاف حسین کی قیادت پر اعتماد کرتی ہے۔ اس کے پیش نظر ضروری ہوگیا تھا کہ الطاف حسین اور اْس کے انتہائی قریبی ساتھیوں جن کے ''را‘‘کے ساتھ روابط اور بھارت سے فنڈز وصول کرنے کے بارے میں کوئی شْبہ باقی نہیں رہا، کے خلاف ایک اور اقدام کیاجائے۔ مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کا اعلانِ بغاوت اور الطاف حسین کی قیادت پر حملے اسی اقدام کا حصہ ہیں اور اس کا مقصد وہی نتائج حاصل کرنا ہے جو اس سے پہلے کے اقدامات سے حاصل نہیں ہوسکے۔ یعنی اْردو بولنے والے شہریوں پر الطاف حسین کے سحر کو ذائل کرنا تاکہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی بجائے ایک ایسی سیاسی قوت کو قدم جمانے کا موقع دیا جائے جو کراچی اور سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ''مثبت‘‘کردار ادا کر سکے۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصطفی کمال اور اْن کے ساتھی اْردو بولنے والے لوگوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کر کے سیاست میں مجوزہ مثبت کردار ادا کر سکیں گے؟ گزشتہ تقریباًََ تین ہفتوں کے دوران میں مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی پیش قدمی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا ہاں میںجواب دینا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الطاف حسین پر عائد کیے گئے الزامات کافی حد تک درست ہیں کیونکہ یہ پہلی دفعہ نہیں لگائے گئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ الطاف حسین کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں کی طرف سے پہلی دفعہ کھلے عام لگائے گئے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اْردو بولنے والوں کی اکثریت کا ردِعمل کیاہوگا؟ میری رائے یہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے اْردو بولنے والے لوگ ان الزامات کو صحیح مانتے ہوں، تب بھی وہ الطاف حسین کی قیادت کو مسترد کرکے مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی طرف سے اعلان کردہ نئی پارٹی کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہوں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بے شک گزشتہ بیس دنوں میں مصطفی کمال کے ساتھیوں کی تعداد سات ہوچکی ہے، لیکن ابھی تک کراچی یا حیدرآباد میں مہاجر آبادی کے کسی بڑے ٹکڑے کا الطاف حسین کے ووٹ بینک سے ٹوٹ کر مصطفی کمال کے ساتھ جا کھڑا ہونے کی عملی مثال سامنے نہیں آئی۔ 18مارچ کو ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے موقع پر کراچی اور حیدر آباد میں مہاجر آبادی جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے،کا بہت بڑی تعداد میں جمع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ الطاف حسین کے خلاف ''را‘‘کا ایجنٹ ہونے کے ثبوت سامنے آنے اور مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی طرف سے مہاجروں کو ایک متبادل قیادت کی پیش کش کرنے کے باوجود الطاف حسین کا ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ہے۔
ایسا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ یہ اْن معروضی حالات کے عین مطابق ہے جن کا اْردو بولنے والے لوگوں کو گزشتہ کچھ عرصہ سے سامنا ہے۔ الطاف حسین نے اپنی سیاست کی عمارت لسانی بنیادوں پر قائم کی اور اب بھی اْن کی سیاست کا محور لسانی بنیادوں پر اْردو بولنے والے لوگوں (مہاجروں)کی ایک الگ پہچان ہے۔ موقع کے مطابق الطاف حسین نے مہاجروں میں ایک شدید احساس عدم تحفظ پیدا کرنے کے لئے اس لسانی کارڈ کو شدومد سے استعمال کیا ہے۔ مثلًا پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں کولیشن پارٹنر ہونے کے باوجود ایم کیو ایم نے بارہا الزام عائد کیا کہ مہاجروں کو اْن کے ''جائز‘‘حقوق نہ دے کر اْن سے امتیازی سلوک روارکھا جارہا ہے اور ایم کیو ایم کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے بیانات اور سخت ردِعمل کی دھمکیاں دینے والوں میں مصطفی کمال کے سب سے معتمد ساتھی، انیس قائم خانی پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ اس قسم کے بیانات اور دھمکیوں کا صرف ایک مقصد تھا: مہاجروں میں شدید احساس عدم تحفط پیدا کرنا اور اْن کو یہ باور کروانا کہ وہ دیگر لسانی گروپوں یعنی سندھی، پشتون اور پنجابی لسانی گروپوں کے محاصرے میں ہیں اور محاصرے کی اس کیفیت میں صرف الطاف حسین ہی اْنہیں تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔
مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں کی طرف سے الطاف حسین کی قیادت کو چیلنج کرنے کے باوجود مہاجر اب بھی اپنے آپ کو محاصرے کی حالت میں محسوس کرتے ہیں۔ رینجرز کی طرف سے کراچی میں ایم کیو ایم کے ٹھکانوں پر چھاپے اور متعدد کارکنان جن میں کئی سینئر رہنما بھی شامل ہیں،کی گرفتاری نے محاصرے کی اس کیفیت اور مہاجروں میں احساس عدم تحفظ کو اور بھی مضبوط کردیا ہے۔ اس کا فائدہ الطاف حسین کو پہنچ رہا ہے جس کے خلاف بھارتی ایجنٹ ہونے کے ثبوت سامنے آنے کے باوجود اْردو بولنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی اْس کے ساتھ ہے۔ مصطفی کمال اور اْن کے ساتھیوں نے الطاف حسین کی قیادت کو چیلنج توکیا ہے لیکن ایک ایسا سیاسی پروگرام نہیں دیا جو نہ صرف مہاجروں میں احساس عدم تحفظ دور کر سکے بلکہ اْنہیں الطاف حسین سے ہٹا کر نئے گروپ کا ساتھ دینے پر مائل کرسکے۔ مصطفی کمال اور اْن کے ساتھی بھی لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ الطاف حسین کی پچ پر کھیلنے کے مترادف ہے جس میں اْن کی کامیابی کے کم امکانات نظر آتے ہیں۔