"DRA" (space) message & send to 7575

دھرناسیاست کا تازہ ترین انداز

اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک قبضہ جمائے رکھنے کے بعد سْنی تحریک کے کارکنوں اور رہنمائوں نے اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے، لیکن اپنے پیچھے احتجاجی سیاست کے ایک نئے انداز‘ حکومت کی بے بسی اور ملک میں جمہوری سیاست کے مستقبل کے بارے میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث کو چھوڑ گئے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بار بار اْبھر رہا ہے کہ 2014ء میں طاہرالقادری اور عمران خان کے مشہور دھرنوں سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے کچھ سبق سیکھا ہو گا اور وفاقی دارالحکومت پر یلغار کو روکنے کیلئے مؤثر حکمت عملی تیار کی ہو گی؟ لیکن راولپنڈی میں ایک جلسہ کے شرکا جتنی آسانی سے طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے اسلام آباد کے حساس ترین علاقے یعنی ریڈ زون تک پہنچے اْس سے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سابقہ تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ مظاہرین اسلام آباد کے ریڈ زون میں کیسے داخل ہوئے، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو سات روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی‘ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی زبان زد خاص و عام ہیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے وفاقی وزارت داخلہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلسہ کے شرکا اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جس کی روک تھام کیلئے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں‘ لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے پولیس اور کنٹینرز کی صورت میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور مظاہرین نے ڈی چوک میں اپنے جھنڈے گاڑ کر پاکستان کی ریاست اور اْس کے اداروں کی کمزوری اور بے بسی کو اْجاگر کر دیا۔ یہ اطلاع بھی گردش کر رہی ہے کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے وفاقی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ راولپنڈی جلسہ کے شرکا اسلام آباد کا رْخ نہیں کریں گے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے ہی ادارے یعنی آئی بی کی رپورٹ کو در خود اعتنا نہ سمجھتے ہوئے پنجاب حکومت کی یقین دہانی پر اعتبار کر لیا‘ اور اْس کے نتیجے میں مظاہرین نہ صرف ریڈ زون میں داخل ہو گئے بلکہ تین روز تک وفاقی حکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ تحقیقات ہونی چاہیے کہ پنجاب نے کس بنیاد پر وفاقی حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ راولپنڈی جلسہ میں شرکت کرنے کے بعد سْنی تحریک کے ڈنڈا بردار کارکنان اسلام آباد کا رْخ نہیں کریں گے۔ 
پاکستان سْنی تحریک ایک کالعدم تنظیم نہیں بلکہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے علما، مشائخ، سجادہ نشینوں، پیروں اور اْن کے پیروکاروں کی نمائندہ جماعت ہے۔ دیگر مسلکوں کے مقابلے میں سْنی تحریک کو ایک غیر متشدد اور اعتدال پسند اسلام کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس جماعت میں بھی ''ہارڈ کور‘‘ یعنی انتہا پسند عناصر موجود ہیں جن میں سے بعض پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن میں جہاں دیگر کالعدم مذہبی تنظیموں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے پر حکام نے تحویل میں لیا، وہاں سْنی تحریک کے بھی بعض کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت نئے ناموں کے ساتھ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان کے بعض کارکنوں پر نظر رکھنے کیلئے فورتھ شیڈول (Fourth Schedule) کیٹیگری بنا رکھی ہے جس میں ایسے افراد کا نام شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور احتجاجی جلسوں اور جلوسوں میں اْن کی شرکت کو روکنے کیلئے اْن کی نقل و حرکت پر پابندی بھی عائد کی جاتی ہے۔ لیکن راولپنڈی کے جلسہ اور اْس کے بعد شرکا کی اسلام آباد کے طرف مارچ کرنے کے موقع پر حکومت پنجاب نے ایسا اقدام نہیں کیا، بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کے تشدد مظاہروں میں فورتھ شیڈول میں شامل کارکْن سب سے آگے تھے۔ اس دوران میں سرکاری املاک کو جو نقصان پہنچا اور حکومت و ریاست کے اداروں کے خلاف جو نازیبا زبان استعمال کی گئی، اْس میں یہ انتہا پسند عناصر پیش پیش تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے یہ کہہ کر کہ حکومت کی طرف سے دھرنا دینے والوں کو کوئی رعایت نہیں دی گئی اور جن سات نکات کی بنیاد پر مظاہرین نے اسلام آباد کا ڈی چوک خالی کیا، وہ ایک غیر تحریری مفاہمت ہے‘ دراصل حکومت کی کمزوری اور بے بسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ دھرنا ختم کرکے واپس لوٹنے والے مظاہرین کے چہروں پر فتح کے تاثرات سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ اْن کا سب سے اہم مقصد ریاست اور حکومت کی کمزوری کو آشکار کرنا تھا‘ جس میں وہ کامیاب رہے اور حکومت نے تمام وسائل کے باوجود ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مسلح مظاہرین کو نہ صرف اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے دیا بلکہ تین روز تک اْنہیں وفاقی دارالحکومت میں زندگی مفلوج کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ آئندہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں احتجاجی جلسے یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن کیا حکومت اس پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروا سکے گی؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں اس قسم کی متشدد سرگرمیوں کو روکنے کیلئے جس مصمم ارادے کا اظہار کیا گیا ہے، عوام اْس پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں، کیونکہ راولپنڈی میں جلسے سے اسلام آباد میں دھرنے تک کے عرصہ میں نہ صرف وفاقی اور پنجاب حکومت کے درمیان رابطوں کا فقدان نظر آیا‘ بلکہ خود وفاقی حکومت بھی اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے یکسْو نظر نہیں آئی۔ ایک طرف چودھری نثار میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ اگلے روز ریڈ زون کو ہر صورت میں خالی کروا لیا جائے گا، دوسری طرف تین وفاقی وزیر دھرنے کے رہنمائوں کے ساتھ مسئلے کے حل کیلئے گفت و شْنید میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور اْس میں ملوث عناصر کے بارے میں موجودہ حکومت کا نہ تو کوئی واضح موقف ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس پالیسی۔ دہشت گرد جہاں چاہیں اور جب چاہیں کارروائیاں کرنے میں آزاد نظر آتے ہیں۔ اْس کی بنیادی وجہ حکومت اور ریاست کے اہم حلقوں میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے بارے میں مبہم موقف اور متزلزل پالیسی ہے۔
سیاسی مصلحتوں پر مبنی کمزور پالیسی کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے شہری دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں‘ بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ لاہور کے گلشن اقبال میں بم دھماکے اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے قبضہ کے بعد دہشت گردی سے پوری طرح نمٹنے کیلئے پاکستانی ریاست کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اْٹھائے جارہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کچھ عرصہ پیشتر کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان پر مشتمل خطہ آئندہ کئی دہائیوں تک تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسند عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ امریکی صدر کی تقریر میں ظاہر کیے گئے خدشات کو اگرچہ حکومت پاکستان نے مسترد کر دیا تھا‘ لیکن گزشتہ پونے دو سال سے جاری ''ضرب عضب‘‘ آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں تشدد، دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وارداتوں کے پیش نظر ان خدشات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی اور ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر بھی ضرب عضب کے ہاتھوں ان کی پٹائی کے خلاف ایک ردِعمل ہے۔ مسلح افواج کی طرف سے دبائو کے بعد دہشت گرد اب معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انتہا پسند عناصر کی طرف سے لاہور جیسے مزید حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے‘ لیکن دہشت گردوں نے کئی روپ دھار رکھے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں