افغانستان میں مصالحت اور امن کے قیام کیلئے گزشتہ سال دسمبر میں جن کوششوں کا آغاز ہواتھا،وہ دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔اس عمل کو آگے بڑھانے کیلئے امریکہ،چین،پاکستان اور افغانستان پر مشتمل جو چار فریقی رابطہ گروپ بنایا گیا تھا اْس کے اب تک اسلام آباد اور کابل میں باری باری چار اجلاس ہوچکے ہیں لیکن اس سمت کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔جولائی2015ء میں مری مذاکرات کے بعد اْمید تھی کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا اگلا دور جلد ہوگا لیکن چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی ڈیڈ لاک جوں کا توں قائم ہے۔افغانستان میں حالات تیزی سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔افغان طالبان اپنی بہتر منصوبہ بندی اور تنظیم کی بنیاد پر سرکاری افواج کے خلاف پے درپے کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ رواں سال افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کیلئے انتہائی کٹھن ثابت ہوگاکیونکہ ایک طرف طالبان کا دبائو بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف افغان سکیورٹی فورسز میں بھگوڑوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔
ملکی معاملات کو سدھارنے اور خصوصاً طالبان کے خلاف جنگ میں صدر اشرف غنی کی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے افغان طالبان کیلئے اب مذاکرات میںکوئی دلکشی نظر نہیں آتی۔کیونکہ کابل حکومت دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے اور طالبان کے نزدیک محض چند ماہ کی مہمان ہے۔اس لیے ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کیا فائدہ؟یہی وجہ ہے کہ طالبان نے مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔یہ صورت ِ حال اْن تمام حلقوں بشمول پاکستان کیلئے یقینا باعثِ تشویش ہے جو افغانستان میں جاری خانہ جنگی کو علاقائی امن اور استحکام کیلئے خطر ناک سمجھتے ہیں۔ پاکستان کیلئے امن کی کوششوں میں ناکامی اور اس کے نتیجے میں افغانستان کی خانہ جنگی میں تیزی اس لیے بھی زیادہ باعثِ تشویش ہے کہ افغانستان اْس کا ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی بین الاقوامی سرحد ہے۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی تیز ہوئی تو لاکھوں افغان باشندے ایک دفعہ پھر پاکستان میں پناہ لینے کیلئے آنے لگیں گے۔
مبصرین کے مطابق افغانستان 1990ء کی دہائی کی صورتِ حال کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جب سابق سوویت یونین کی طرف سے قائم کردہ حکومت کابل میں محصور ہوکررہ گئی تھی اور افغانستان کے طول و عرض میں بدامنی،لڑائی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ اس صورت حال میں طالبان کی تحریک پیدا ہوئی اور القاعدہ نے افغانستان میں جڑ پکڑی جس کا خمیازہ ہمسایہ ملکوں کو ہی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو اب تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔اگر افغانستان میں اس قسم کے حالات ایک دفعہ پھر پیدا ہوتے ہیں تو نتائج پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہوں گے اس لیے افغانستان کی موجودہ صورت حال صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ پورے علاقے اور سب سے بڑھ کر افغانستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افغانستان کی مخدوش صورت حال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں افغان سکیورٹی فورسز کا جانی نقصان پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہوچکا ہے۔ سیاسی محاذ پر صورت حال اور بھی خراب ہے۔صدر اشرف غنی کی حکومت کمزور اور غیر موثر حکومت ثابت ہوئی ہے۔اس کی ایک وجہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اْن کے تاجک ساتھیوں کی طرف سے عدم تعاون ہے۔پختون اور تاجک دھڑوں کی باہمی چپقلش نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔حالانکہ 2014ء میں صدارتی انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے بعد اشرف غنی کی حکومت نے چند اہم قدم اُٹھائے تھے،ان میں پاکستان کے ساتھ قریبی مشاورت،تعاون اور روابط پر مبنی تعلقات کا قیام اور طالبان
کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عمل بھی شامل ہیں۔لیکن صدر اشرف غنی کے یہ دونوں اقدام بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں ۔حالانکہ پاکستان نے طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر ایک ساتھ بٹھانے میں پْرخلوص کوششیں کی ہیں اور ان کوششوں کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے۔ لیکن امن کی ان کوششوں میں اب پاکستان کا کردار بھی محدود ہوتا جارہا ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ سرکاری فوجوں کی پسپائی کے بعد افغانستان کے کئی حصے اب طالبان کے موثر کنٹرول میں آچکے ہیں اور طالبان نے اپنا کمانڈ سٹرکچر اب پاکستان کے محفوظ ٹھکانوں سے افغانستان میں منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔اس کے نتیجے میں اب اْن کا پاکستان پر انحصار بتدریج کم ہورہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ سکڑتا جارہا ہے۔اور اب وہ اْنہیں افغان حکومت کے نمائندں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
اگرچہ وزیراعظم محمد نوازشریف کے مشیر برائے اْمور خارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ ماہ پہلی مرتبہ طالبان قیادت کی پاکستان میں موجودگی کا اعتراف کیا اور اس بات کا بھی اشارہ دیا تھا کہ اس کی بنیاد پر اب بھی طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ موجود ہے جسے وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان تیزی سے پاکستان کے حلقۂ اثر سے آزاد ہوتے جارہے ہیں اور جلد ہی ایسا مرحلہ آنے والا ہے جب افغان طالبان پاکستان کے مشورے کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کے ہاتھ میں کیا آپشن رہ جائیں گے؟یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مذاکرات پر مجبور کرنے کیلئے پاکستان طالبان کے
خلاف فوجی کارروائی کرے کیونکہ پاکستانی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ہی شمالی وزیرستان اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک اور محاذ کھولنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اگر افغانستان کی موجودہ صورت حال کو مزید بگاڑ کی طرف جانے سے نہ روکا گیا تو قریبی ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس کے نتائج سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔سب سے پہلے پاکستان کو افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پاکستان ابھی تک1980ء کی دہائی میں آنے والے افغان مہاجرین کو واپس اْن کے ملک میں بھیجنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں ان کی متواتر موجودگی کئی پیچیدگیوں کا سبب بن رہی ہے۔مزید افغان مہاجرین کی آمد سے نہ صرف ہماری معیشت پر بوجھ پڑے گا بلکہ سکیورٹی اور خصوصاً دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیسے معاملات میں نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ جنگ ،بدامنی اور لاقانونیت کے ماحول میں شدت پسند نظریات،انتہا پسند رجحانات اور دہشت گردی کے نیٹ ورک پروان چڑھتے ہیں۔یہ صورت حال پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرسکتی ہے۔اگر افغانستان میں خانہ جنگی میں شدت سے علاقے کے امن اور استحکام کو خطرہ ہوا تو پاک چین اکنامک کوریڈور کے تحت چین نے پاکستان میں جس بھاری سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے،وہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔بگڑتے ہوئے حالات اور لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورت حال میں چین سرمایہ کاری کیلئے کسی اور خطے کا رْخ کر سکتا ہے۔اس لیے افغانستان میں امن اور سلامتی کا قیام نہ صرف افغان عوام خطے کے ممالک بلکہ خود پاکستان کی سلامتی اور خوش حالی کیلئے ضروری ہے۔اس میں بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے پاکستان کے پاس اب بھی موقعہ ہے۔لیکن کسی مصلحت کی بناء پر اگر یہ موقعہ ہاتھ سے جانے دیا تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو انتہائی مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔