"DRA" (space) message & send to 7575

پانامہ لیکس اور وزیراعظم

کیا وزیراعظم نواز شریف کی حکومت پانامہ لیکس سے جانبر ہو سکے گی؟ پاکستان میں آج کل یہ سوال ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے۔ اگرچہ تقریباً پونے تین سال کے دوران میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یکے بعد دیگرے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اُن میں سے بعض انتہائی شدید نوعیت کے تھے، لیکن وزیراعظم کی حکومت محفوظ رہی۔ موجودہ چیلنج مختلف نوعیت کا ہے اور اس دفعہ اُن کے خلاف وہ عناصر بھی صف آرا ہیں جو سابق بحرانوں میں اُن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے تھے۔
سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں حقیقت (Reality) سے زیادہ تاثر (Perception) اہم ہوتا ہے۔ بد عنوانی (Corruption) ایک ایسا الزام ہے جو سیاستدانوں پر اکثر لگایا جاتا ہے۔ عدالت، ٹربیونل یا عدالتی کمشن کے ذریعے اس الزام سے بری بھی ہو جائیں، سیاستدانوں کے دامن سے یہ داغ نہیں دُھلتا، وہ اُن کے ساتھ چمٹا رہتا ہے جب تک کہ وہ عملی سیاست کو خیر باد نہیں کہہ دیتے۔ یہی حال ٹیکس چوری کا ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر یقین کی حد تک پایا جاتا ہے کہ کوئی کاروباری شخص یا صنعتکار ٹیکس چوری کے بغیر سرمایہ دار نہیں بن سکتا۔ وزیراعظم نواز شریف کا تعلق بھی ایک صنعتکار گھرانے سے ہے اور اس پر ٹیکس چوری کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ الزامات کس حد تک غلط ہیں، اس کا فیصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اصل معاملہ لوگوں میں پائے جانے والے تاثر (perception) کا ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کے دوران پانامہ لیکس میں 
ملوث پاکستانیوں بشمول خود اُن کی اپنی ذات کے لئے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشنل کمشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ اس کمشن کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن یہ تشکیل بھی پا جائے اور وزیراعظم اس کے سامنے پیش بھی ہو جائیں تو ملک میں طوفان نہیں تھمے گا کیونکہ مسئلہ قانونی یا تکنیکی نہیں، بلکہ سیاسی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ کیا ایسے شخص کو مُلک کا وزیراعظم بننے کا حق حاصل ہے جس پر یا اُس کے خاندان پر ٹیکس بچانے کا الزام عائد ہو چکا ہو۔ موخر الذکر جُرم کے زمرے میں نہیں آتا لیکن جیسا کہ سترھویں صدی عیسوی کے مشہور سیاسی فلسفہ دان میکاولی نے کہا تھا کہ عام لوگ خواہ خود کتنے ہی چور، ڈاکو، مجرم اور اخلاق باختہ کیوں نہ ہوں، اپنے حکمرانوں کو اخلاقیات کے بلند ترین معیار پر پورا اُترتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف بھی اسی قسم کے مخمصے سے دوچار ہیں۔ پانامہ لیکس میں اُن کا نام شامل نہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام کے تمام افراد غیر قانونی دھندے میں ملوث نہیں ہیں۔ پانامہ لیکس جاری کرنے والے ادارے نے خود وضاحت کی ہے کہ ضروری نہیں کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہوں۔ لیکن اُن کے بیٹوں کے نام شامل ہیں۔ اُن پر صرف آف شور کمپنیوں میں حصہ دار ہونے کا الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ اُن کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے لندن میں بہت مہنگی جائیداد خرید کر رکھی ہے۔ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام کاروبار کے لئے اُن کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا۔ اور اگر اُن کے خاندان نے پاکستان سے یہ سرمایہ لندن منتقل کیا ہے تو اُنہیں بتانا پڑے گا کہ اس کے لئے انہوں نے کون سا طریقہ اختیار کیا۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو جائیداد خریدنے یا کاروبار میں سرمایہ کاری کے لئے فراہم کردہ رقوم کا سورس (source) بتانا پڑتا ہے تا کہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا یہ سرمایہ جائز طریقے سے کمائی گئی دولت پر مشتمل ہے اور کیا مُلک کے مروجہ قوانین کے تحت اِن پر ٹیکس ادا کیا گیا ہے یا نہیں؟
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا بھی نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں؛ تاہم ایک آف شور کمپنی میں اُن کے باپ کی لگائی ہوئی رقم سے اُنہوں نے استفادہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ رقم کوئی بڑی نہیں لیکن ایک آف شور کمپنی میں لگائے گئے سرمایہ سے وہ بالواسطہ طور پر مستفید ہوئے ہیں۔ اس لئے برطانوی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کا اپنا نام پانامہ لیکس میں شامل نہیں بلکہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی آف شور کمپنیوں میں شراکت سے کوئی براہ راست یا بالواسطہ طور پر فائدہ اُٹھایا ہو۔ اِس کے باوجود چونکہ اُن کے خاندان کا نام لیا جا رہا ہے، اس لئے اُن سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف پر اپوزیشن کی طرف سے دباؤ ضرور ہے اور یہ دباؤ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتے۔ لیکن کیا اُن کی حکومت خطرے میں ہے اور کیا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اُس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جسے وہ دھرنے کے ذریعہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے؟ یعنی وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی برخاستگی۔
یہ سچ ہے کہ پانامہ لیکس نے وزیراعظم نواز شریف کو ایک مشکل صورتِ حال سے دو چار کر دیا ہے، لیکن اُن کی حکومت کوکوئی خطرہ لاحق نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن اگرچہ وزیراعظم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کلیئرکریں۔ لیکن استعفے کے مسئلے پر اس کا موقف یکساں نہیں ہے۔ استعفے پر زیادہ زور عمران کی طرف سے دیا جا رہا ہے، جنہوں نے رائیونڈ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ لیکن اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے، اِس حد تک عمران خان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اِس کی وجہ اُن کا یہ خیال ہے کہ عمران خان پانامہ لیکس کی آڑ میں موجودہ حکومت کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ حال ہی میں عمران خان کی جانب سے تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات کو ملتوی کر کے پانامہ لیکس پر فوکس کرنے کا جو اعلان کیا گیا ہے، اُس سے اپوزیشن میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کا شک یقین میں بدل گیا ہے کہ عمران خان اس موقعے سے فائدہ اُٹھا کر وہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ طاہر القادری سے مِل کر دھرنے کے ذریعے حاصل نہ کر سکا تھا۔
تا ہم یہ بات یقینی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم پر دباؤ جاری رہے گا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس مسئلے پر بحث کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم بحث سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے۔ پانامہ لیکس سے پاکستان میںہی نہیں بلکہ دُنیا بھر میں جو ہنگامہ مچا ہوا ہے، اُس کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ مسئلہ خود بخود حل یا غائب نہیں ہو گا۔ اس کے لئے وزیراعظم کو مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا جو اپنی جگہ وزیراعظم کا عہدہ پارٹی میں سے کسی اور کے حوالے کر کے خُود کو احتساب کے لئے پیش کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں