اپریل کے تیسرے ہفتہ میں امریکی صدر بارک اوباما نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ بحیثیت صدر یہ ان کا آخری دورہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل وہ سعودی عرب کا تین مرتبہ دورہ کر چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دوروں کے برعکس اس دفعہ صدر اوباما کی آمد پر سعودی عرب کی طرف سے گرم جوشی کا عنصر ناپید تھا۔ بلکہ امریکی میڈیا کی رائے میں سعودی حکام کی جانب سے سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔ ریاض کے ہوائی اڈے پر جب امریکی صدر کو لانے والا ایئر فورس ون طیارے نے لینڈ کیا‘ تو اوباما کا استقبال کرنے والوں میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلیمان کی بجائے مقامی گورنر اوروزیر خارجہ احمد الجبیر تھے۔ حالانکہ گزشتہ دورے کے موقع پر جب صدر اوباما ایک سعودی فرمانروا کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اپنی اہلیہ کے ساتھ سعودی عرب پہنچے تھے، تو شاہ سلیمان نے ولی عہد شہزادہ محمد کے ہمراہ ان کا استقبال کیا تھا۔ سعودی عرب کی طرف سے صدر اوباما کے لیے سردمہری کی وجہ امریکہ اور سعودی کے درمیان بعض امور پر بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ ان میں سب سے اہم سعودی حکام کی نظرمیں امریکہ کا ایران کی طرف نمایاں جھکائو ہے۔ گزشتہ برس ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے پر ایران اور امریکہ کی سربراہی میں پانچ بڑے ممالک کے درمیان سمجھوتے کے بعد‘ نہ صرف امریکہ بلکہ یورپی یونین کے رُکن ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات میں بہتری پر سعودی عرب کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیاجا رہا ہے۔ اس تاریخی معاہدہ کے بعد اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر جو اقتصادی پابندیاں عائد تھیں‘ وہ اُٹھائی گئی ہیں۔ ایران اب اپنا خام تیل اورگیس عالمی منڈی میں فروخت کرنے میں آزاد ہے۔ دوسرے مُلک اب بلا خوف و خطر ایران میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں چونکہ اوپیک کے رُکن ممالک میں ایران سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے یورپ، امریکہ اور جاپان پر مشتمل صنعتی ممالک کے بلاک کے لیے ایران ایک اہم منڈی اور تجارتی پارٹنر ہے۔ اس سے یقیناً سعودی عرب مضطرب نظر آتا ہے۔ کیوں کہ بدقسمتی سے وہ ایران کو اس خطے میں اپنا حریف سمجھتا ہے۔
صدر اوباما کی انتظامیہ سعودب عرب کے اس موقف سے متفق نہیں۔ صدر اوباما ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ اب بھی متعدد مسائل جیسے مسئلہ فلسطین اور شام میں صدر بشار الاسد کا مستقبل‘ پر ایران اور امریکہ ایک دوسرے سے مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ پھر بھی ایران کے بارے میں امریکہ کے رویّے میں بہتر اور مثبت آثار نظر آتے ہیں۔ صدر اوباما نے ایران کے بارے میں سعودیہ کی موجودہ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے‘ ایران اور سعودیہ دونوں ممالک کو خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے خطوں میں استحکام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے تعاون کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ ان دونوں خطوں میں ایرانی کردار کی اہمیت کا قائل ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اٹلانٹک میگزین کے جیفری گولڈ برگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر اوباما نے سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ اختلافات کے باوجود خطے میں ایران کے ساتھ مل کر کام کرے۔ کیونکہ ایران اور سعودی عرب کی باہمی محاذ آرائی سے مشرق وسطیٰ میں داعش جیسی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں تقویت حاصل کر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق صدر اوباما ایران اور سعودی عرب کی لڑائی میں کسی ایک کا ساتھ دینے کی بجائے‘ دونوں میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقف کے پس پردہ ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی صدر اوباما کی دیرینہ خواہش ہے۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے 2013ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ اس خطاب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی دوسری مدت صدارت کے باقی ماندہ برس دو اہم مقاصد کے حصول پر صرف کریں گے: ایک ایران کے ساتھ ایٹمی مسئلہ حل کر کے اس کے ساتھ امریکہ کے بہتر تعلقات کا آغاز اور دوسرے مسئلہ فلسطین کا حل۔ جولائی2015ء میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہر ی مسئلہ کے حل پر ایک جامع سمجھوتہ ہوا۔ اس کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایران کے تعلقات میں نمایاں بہتری آ رہی ہے۔
لیکن سعودی عرب امریکہ کی اس روش سے ناراض ہے۔ دراصل امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کی ابتداء آج سے دس برس سے زائد عرصہ قبل اس وقت ہو گئی تھی جب عراق پر حملے کے بعد امریکہ نے مُلک کے سُنّی فرقے کے علاوہ شیعہ مسلک کے حامل لوگوں کو بھی سٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اگرچہ امریکہ کا مقصد شیعہ سنی مسلمانوں کو آپس میں لڑانا تھا،لیکن ایران کی دانشمندانہ علاقائی پالیسی نے امریکہ کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ سعودی عرب کے خیال میں امریکہ نے نہ صرف عراق میں ایران کی حامی شیعہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی‘ بلکہ شام میں صدر بشار الاسد کو بھی اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا موقعہ دیا۔ شام اورعراق میں ایران کے اثرو نفوذ کی افزائش کو صرف سعودی عرب ہی ناپسند نہیں کرتا، بلکہ اسرائیل بھی اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصوّر کرتا ہے۔ حالانکہ ان دونوں ملکوں میں ایران نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف نہایت مثبت کردار ادا کیا۔ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں 2015ء کے ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے ناخوش ہیں۔ ان کے خیال میں اس معاہدے نے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے پورے خطے میں ایران کے قد کو بلند کر دیا ہے اور اب اس کا سایہ اس خطے کی حدود سے باہر نکل کر وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقوں پر بھی پڑنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ملکوں کی نظریں ایٹمی سمجھوتہ ہونے کے بعد نہ صرف ایران اور مغربی ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے‘ بلک ایک ذمہ دار قابل اعتماد اور مہذب ملک کی حیثیت سے ایران کو علاقائی اور بین الاقوامی امور میں مثبت کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس سلسلے میں امریکی اور مغربی میڈیا اور تحقیقاتی مراکز کی طرف سے امریکی حکومت کو افغانستان کی گتھی سلجھانے میں ایران کا تعاون حاصل کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق اگرچہ اب بھی امریکہ اور ایران کے درمیان بعض بنیادی مسائل پر اختلافات موجود ہیں اور جوہری مسئلے کے حل کے بعد بھی امریکہ اور ایران کے باہمی تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی‘ تاہم ایران نے نہ تو کبھی مذہبی انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی ہے اور نہ دہشت گردی کی معاونت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں اب امریکہ اور مغربی دنیا میں سعودی عرب پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی اپنے نظریات کے مطابق اسلام کو فروغ دینے کے لیے دل کھول کر مدرسوں‘ مسجدوں اور خیرات کے نام پر چلنے والی تنظیموں کو مالی امداد دی ہے۔ اس طرح بالواسطہ طور پر سعودی عرب دہشت گردوں کی اعانت کا مرتکب ہوا ہے۔ متعدد حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ سعودی عرب نے عراق اور شام میں ایران کے مبینہ اثرو رسوخ کے آگے بند باندھنے کے بہانے''داعش‘‘ کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کا قریبی اتحاد 80برس سے چلا آ رہا ہے۔ اس وقت بھی امریکہ اور سعودیہ کے درمیان انتہائی قریبی مالی اور فوجی تعلقات قائم ہیں۔ سعودی عرب کے موجودہ حکمران کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا‘ امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں حکمت عملی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ امریکہ اس اتحاد کو نہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ بلکہ مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے لازمی سمجھتا ہے۔ اس لیے امریکہ کی ہر حکومت نے سعودی عرب کے حکمران شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط بنانے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی صنعت میں امریکہ کا بھاری سرمایہ لگا ہوا ہے۔ تیل برآمد کرنیوالے ممالک میں پہلا نمبر ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کے ہاتھ میں نہ صرف عالمی تیل مارکیٹ بلکہ خود امریکہ کی معیشت کے استحکام کی چابی ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب نے امریکہ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس لیے ایک عرصہ سے بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد سعودی عرب امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے۔ لیکن اب اس اتحاد میں رخنے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی میڈیا میں چھپنے والی خبروں کے مطابق گزشتہ صدی کے اوائل سے برسر اقتدار''ہائوس آف سعود‘‘ اب اندرونی خلفشار‘ اختلافات اور اقتدار کی رسہ کشی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے؛ اگرچہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر رکھنے میں سعوب عرب کا بھی ہاتھ ہے‘ تاہم اس کا منفی اثر سعودی عرب کی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے‘ جس کی وجہ سے حکومت کو عوام کو دی گئی کئی سبسیڈیز واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس سے سعودی عرب میں عوامی سطح پر اضطراب پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی اور مغربی حلقے یمن ہیں فوجی مداخلت اور 34سنّی اسلامی ممالک کے اتحاد کے قیام کو سعودی حکومت خصوصاً ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد کی مہم جویانہ پالیسی سے تعبیر کر رہے ہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان اقدامات سے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کا خطہ جو پہلے ہی جنگ و جدل میں مبتلا ہے، مزید عدم استحکام سے دو چار ہو جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایران کو اس کی پرامن علاقائی پالیسی اور قدیم تہذیب اور ثقافت کا وارث ہونے کی وجہ سے موجود حالات میں ایک قابل اعتماد اور مددگار ملک کے طور پر پسند کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اس تبدیلیٔ ہوا کی ذمہ داری امریکہ اور خصوصاً صدر اوباما پر ڈال رہا ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی طرف صدر اوباما کی آمد کے موقع پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس کا مقصد امریکی رہنما کو یہ صاف پیغام دینا تھا کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودہ پالیسی خصوصاً ایران کی طرف جھکائو پر خوش نہیں۔