"DRA" (space) message & send to 7575

مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں

گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ جناب سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ہفتے پاک بھارت جامع مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے۔ جناب سرتاج عزیز کے اس بیان سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے جو پاک بھارت تعلقات کے بارے میں اکثر کہی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان خواہ کتنی ہی کشیدگی کیوں نہ ہو، باہمی تنازعات کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت نے 2004ء میں دو طرفہ مذاکرات پر مبنی ایک عمل کا آغاز کیا تھا جسے کمپوزٹ ڈائیلاگ کا نام دیا گیا تھا۔ پہلے چار رائونڈز کے بعد 2008ء میں یہ عمل اچانک تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس کی وجہ نومبر2008ء میں ممبئی میں دہشت گرد حملے تھے۔ جن کے خلاف ردعمل کے طور پر بھارت نے مذاکرات ملتوی کر دیے۔ لیکن ختم نہیں کیے۔ اپریل2011ء میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن کے درمیان بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اگلے سال یعنی2012ء میں پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں نئی دہلی اور اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں نہ صرف پاک بھارت کشیدگی میں کمی ہوئی بلکہ باہمی تعلقات خصوصاً تجارت اور اقتصادی تعاون کے شعبوں میں اہم اقدامات کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ ان میں پاکستان کی طرف سے بھارت کو ایم ایف این سٹیٹس یعنی تجارت 
کے لیے بھارت کو خصوصی رعایات دینے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ لیکن 2012ء کے آخر اور 2013ء کے شروع میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر تعینات پاکستان اور بھارت کی سرحدی فوجوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور متعدد فوجی جوانوں اور شہریوں کی ہلاکت کے باعث مجوزہ مذاکرات ایک دفعہ پھر تعطل کا شکار ہو گئے۔ اسی اثناء میں پاکستان اور بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں برسر اقتدار آ گئیں۔ پاکستان میں یہ انتخابات مئی2013ء میں ہوئے اور بھارت میں مئی2014ء میں ہوئے۔ پاکستان میں جناب محمد نواز شریف کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی۔ جبکہ بھارت میں بی جے پی کی جیت سے جناب نریندرا مودی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ بھارتی وزیر اعظم اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے درمیان اول الذکر کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر جو ملاقات ہوئی‘ اس میں امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اور اس مقصد کے لیے جولائی2014ء میں نئی دہلی میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ملاقات طے پا گئی لیکن یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ کشمیری رہنمائوں کی ملاقات کا بہانہ بنا کر یہ ملاقات منسوخ کر دی۔ گزشتہ سال25دسمبر کو لاہور میں جناب نریندرا مودی اور جناب نواز شریف کے درمیان اچانک ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اسی سال فروری میں خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات طے پائی تھی لیکن پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر مبینہ دہشت گرد حملے کی وجہ سے یہ ملاقات ایک دفعہ پھر کھٹائی میں پڑ گئی۔
تاہم دونوں طرف سے مذاکرات کی گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے لیے پاکستان اور بھارت کی اعلیٰ قیادت اور سینئر حکام متواتر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خاں جنجوعہ اور بھارت کے اجیت ڈوول کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ ان دونوں اعلیٰ افسران نے میڈیا کی آنکھ سے بچ کر نامعلوم مقامات پر خفیہ ملاقاتیں کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ کی راہ ہموار کی ہے۔ جناب سرتاج عزیز نے ان مذاکرات کے جلد انعقاد کی نوید اسی پس منظر میں سنائی ہے۔ حالانکہ صرف چند روز قبل پاک۔ بھارت تعلقات کے افق پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور دونوں کے درمیان مذاکرات کے امکانات کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں نئی دہلی میں منعقدہ ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں ان تمام مسائل پر کھل کر بات چیت ہوئی جو ان دونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازع بنے ہوئے ہیں۔ ان میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا۔ لیکن باقاعدہ مذاکرات کو دوبارہ شروع ہونے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ حالانکہ پاکستان نے اس ملاقات سے قبل اور اس کے دوران بھی مذاکرات کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا تھا کیوں کہ پاکستان کے نزدیک باہمی تنازعات کا حل صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ تاخیر کی صورت میں امن دشمن قوتیں جو سرحد کے دونوں پار موجود ہیں۔ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ لیکن بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر نے اس سلسلے میں کوئی یقین دہانی نہیں کروائی تھی۔ بلکہ پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات سے پہلے پٹھانکوٹ حملے میں مبینہ طور پر ملوث جیش محمد کے کارکنوں خصوصاً اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ صاف ظاہر تھا کہ پاکستان اور بھارت کی ترجیحات ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہیں۔ پاکستان فوری طور پر مذاکرات کا خواہش مند ہے۔ اور ان کے لیے کسی پیشگی شرائط کے خلاف ہے۔ لکن بھارت مذاکرات سے قبل پٹھانکوٹ کے مسئلے پر پیش رفت چاہتا ہے اس کا اصرار ہے کہ وعدے کے مطابق پاکستان اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ دونوں کے درمیان اس واضح اختلاف کی روشنی میں مذاکرات کے احیاء کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔
لیکن سرتاج عزیز کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ ''ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے موقع پر ہونے والی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں پیش رفت نہ ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششوں 
سے مکمل طور پر ہاتھ نہیں کھینچ لیا تھا۔ بلکہ ''بیک چینل ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے وہ اسے ممکن بنانے کے لیے متواتر کوشاں تھے۔ اس سے دونوں ملکوں کی قیادت کی دور اندیشی ‘ بالغ پن اور فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے پاکستان اور بھارت کی موجودہ جمہوری اور منتخب حکومتیں نہ صرف اپنے ملک اور عوام کی فلاح اور سلامتی کے تقاضوں سے آگاہ ہیں۔ بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونے کی وجہ سے ان پر لازم ہے کہ وہ ایک ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اور بھارت کی موجودہ حکومتوں پر امن اور تعاون کی جانب بڑھنے کے لیے صرف ان کے عوام کی طرف سے دبائو نہیں‘ بلکہ وہ تمام ممالک جن کا ان دونوں ملکوں کے دوستوں میں شمار ہوتا ہے‘ پاک بھارت امن مذاکرات کی فوری بحالی پر زور دے رہے ہیں۔ حال ہی میں چین کی طرف سے ایک بیان آیا تھا جس میں پاکستان اور بھارت دونوں پر باہمی مذاکرات جلد شروع کرنے پر زور دیا گیا تھا اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) متعدد بیانات میں امریکی حکومت کی اس تشویش سے آگاہ کر چکا تھا جو اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی بناء پر محسوس ہو رہی تھی۔امریکہ کے لیے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایف16جیٹ طیاروں کی پاکستان کو فروخت کے راستے میں امریکی کانگرس کی طرف سے رکاوٹ کی ایک وجہ‘ پاک بھارت کشیدگی بھی بتائی جاتی ہے۔ امریکہ کی موجوہ حکومت پاکستان اور بھارت میں کشیدگی میں اضافے کو نہ صرف افغانستان میں اس کی حکمت عملی کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے بلکہ اسے معلوم ہے کہ یہ صورت حال پورے خطے میں امریکہ مفادات کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر متواتر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی توجہ اور توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے‘ مشترکہ دشمن یعنی دہشت گردی کے خلاف استعمال کریں۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے سیاسی رجحانات اور جیو سٹرٹیجک محرکات کی روشنی میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی قیادت کو اب یہ تیزی سے احساس ہونے لگا ہے کہ محاذ آرائی اور تصادم کی پالیسی کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کے مفادات اور سکیورٹی خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے تعاون کی پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔ اور اگر تعاون کی اس پالیسی کے راستے میں باہمی تنازعات رکاوٹ پیدا کرتے ہیں تو انہیں بات چیت کے ذریعے پرانے طریقے سے حل کرنا پڑے گا۔ سرتاج عزیزکا امن مذاکرات کے سلسلے میں بیان اس سیاق و سباق میں دیا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں