بھارت اور نیپال کے درمیان جغرافیائی‘ تاریخی‘ سماجی‘ لسانی اور اقتصادی عوامل کی بنا پر اتنے گہرے‘ پرانے اور قریبی تعلقات ہیں کہ دنیا میں شاید ہی دو ایسے ہمسایہ ممالک ایسی مثال پیش کر سکیں۔ نیپال کی1800کلو میٹر سے زائد طویل سرحد بھارت کی پانچ شمالی اور شمال مشرقی ریاستوں یعنی اترکھنڈ‘ اتر پردیش‘ بہار‘ مغربی بنگال اور سکم کے 20 سے زیادہ اضلاع سے متصل ہے۔ نیپال چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے، اگرچہ اس کی سرحدیں چین‘ تبت اور بھوٹان سے بھی ملتی ہیں‘ لیکن بلند و بالا پہاڑ اور دشوار گزار جنگلوں کی وجہ سے ان ملکوں کے ساتھ نیپال کے تجارت اور دیگر مقاصد کے لیے رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف جنوب میں بھارت کے ساتھ نیپال کی طویل سرحد تجارتی سامان لانے لے جانے اور انسانوں کی آمدورفت کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر نیپال بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کے لیے بھارت کا دست نگر ہے۔ اس کی درآمدات اور برآمدات کا 70 فیصد بھارت کے راستے لایا اور بھیجا جاتا ہے۔ بھارت کے بعد نیپال واحد ہندو ملک ہے۔ اس کی 87 فیصد سے زیادہ آبادی اعلیٰ ذات کے ان ہندوئوں پر مشتمل ہے‘ جن کے آبائو اجداد بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں شمال مغربی ہندوستان پر مسلمانوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہمالیہ کی ترائی کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لباس‘ خوراک‘ رہن سہن، مذہبی رسومات اور تہوار دونوں ممالک میں ایک جیسے ہیں۔ 1950ء کے دو طرفہ دوستی اور باہمی تعاون کے معاہدے کے تحت بھارت میں نیپال کے باشندوں کو تقریباً برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں۔ نیپال کے باشندے بھارت میں بلا روک ٹوک کاروبار‘ تجارت اورسرمایہ کاری میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس وقت60 لاکھ کے قریب نیپالی باشندے بھارت میں مقیم ہیں جن کی اکثریت طلباء اور کاروبار سے وابستہ لوگوں کی ہے۔ نیپال کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں خصوصاً نیپالی کانگرس کے کارکنوں اور رہنمائوں کے ہر بھارتی حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ خود نیپال میں آزادی‘ قوم پرستی اور جمہوریت کے قیام کی تحریک میں بھارت کی قوم پرست تحریک کا نمایاں کردار رہا ہے۔
اس تاریخی و ثقافتی اور سیاسی پس منظر کی روشنی میں اصولاً بھارت اور نیپال کے باہمی تعلقات انتہائی خوشگوار، مثالی اور مکمل اعتماد اور تعاون پر مبنی ہونے چاہئیں، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ گزشتہ 68 برسوں میں متعدد مواقع پر نیپال اور بھارت کے تعلقات بحران کا شکار رہے اور بعض اوقات بحرانی کیفیت اتنی شدید ہوتی رہی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی روابط منقطع ہو گئے۔
بھارت اور نیپال کے درمیان اسی قسم کا بحران حال ہی میں رونما ہوا ہے۔ نیپال کی صدر شریمتی بدھیا دیوی بھنڈاری‘ بھارت کا دورہ کرنے والی تھیں، لیکن ان کا یہ دورہ اچانک منسوخ کر دیا گیا اور بھارت میں نیپال کے سفیرکو ان کے عہدے سے برطرف کر کے واپس بلا لیا گیا گیا۔ مبصرین کے نزدیک نیپالی وزیر اعظم شری کے پی شرما اولی (Oli) کے ان اقدامات سے بھارت اور نیپال کے تعلقات کو شدید دھچکا لگا؛ حالانکہ وزیر اعظم اولی نے اسی سال فروری میں بھارت کا چھ روزہ سرکاری دورہ کیا تھا، جس کا مقصد بھارت اور نیپال کے دو طرفہ تعلقات کو مزید گہرا اور بہتر بنانا تھا۔
نیپال کی طرف سے ان اقدامات کا سبب‘ بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر وزیر اعظم اولی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش بتائی جاتی ہے کیونکہ بھارت کی نظر میں بائیں بازو کے نظریات کی حامل وزیر اعظم کی مخلوط حکومت نے نیپال کو چین کے زیادہ قریب کر دیا ہے۔ نیپال کے معاملے میں بھارت چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور نیپال میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ کو اپنے قومی مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت اولی حکومت کے خلاف اس سازش کو اپوزیشن جماعت 'نیپالی کانگریس‘ کی مدد سے کامیاب کروانا چاہتا تھا۔اور اس مقصد کے لیے ان کی حکومت میں شامل لینینسٹ/ مائو پرست رہنما پشیا کمل دہل پراچندا (Prachanda) کو حکومت سے الگ ہونے پر رضا مند کر لیا تھا۔ مائو پرست کمیونسٹ پارٹی‘ وزیر اعظم اولی کی حکمران مارکسسٹ لینینسٹ پارٹی کے بعد نیپالی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کی علیحدگی کے بعد اولی حکومت کا خاتمہ یقینی تھا۔ لیکن اولی نے مائو پرست رہنما پراچندا کے مطالبات تسلیم کر کے انہیں حکومت کا اتحادی رہنے پر راضی کر لیا، اس سے نیپال کی موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بھارتی سازش ناکام ہوگئی۔
بھارت اور نیپال کے درمیان کشیدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں‘ چند ماہ قبل بھی بھارت نے نیپال کے ساتھ اپنی لمبی سرحد بند کر کے نیپال کو جانے والے بھارتی سامان کی ترسیل روک دی تھی۔ بھارت کے اس اقدام سے نیپال کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نیپال ایندھن‘ خوراک اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا بھارت کے راستے درآمد کرتا ہے۔ لیکن بھارت نے اپنی سرحد سے ملحقہ نیپالی علاقوں یعنی ترائی میں مادھیشی باشندوں کی ایجی ٹیشن کو بہانہ بنا کر سامان سے لدے ٹرکوں کو سرحد سے پار جانے سے روک دیا۔ یہ ٹرک کئی ماہ نیپال کی بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحد پر کھڑے رہے اور اس دوران مادھیشی باشندوں کی احتجاجی تحریک جاری رہی۔ یہ تحریک نیپال میں نئے آئین کی بعض ایسی دفعات کے خلاف تھی جن کے تحت نیپال کو ایک وفاقی ریاست قرار دے کر اس کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مادھیشی باشندے اپنے خطے کی مختلف اکائیوں میں تقسیم کے خلاف تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے نیپال کے پہاڑی اور وادی کٹھمنڈو میں رہنے والے باشندوں کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو جائے گی۔
تاہم نیپال کے سرکاری حلقوں کو یقین ہے کہ مادھیشی ایجی ٹیشن کے پیچھے بھارت کی قدامت پرست سوچ کی حامل بیورو کریسی اور انٹیلی جنس ایجنسی''را‘‘ کا ہاتھ تھا اور ان عناصر کا مقصد دراصل نیپال میں سیاسی عدم استحکام کی دائمی کیفیت پیدا کرنا تھا تاکہ نیپال میں کبھی کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے نیپال چین کی طرف جھکنے کی بجائے ہمیشہ بھارت کا محتاج رہے۔ نیپال میں نئے آئین کی تشکیل مشکل مرحلہ تھا۔ اس سے
ملک کے کئی طبقے مطمئن نہیں تھے؛ تاہم بھارت نے اسے نیپال کا ایک داخلی مسئلہ سمجھنے کی بجائے اس میں مداخلت کرنا شروع کر دی۔اس سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ 2014ء کے انتخابات کے بعد نریندر مودی نے جب وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں بھارت کے پڑوسی خاص طور پر جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سب سے پہلے جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون''سارک‘‘ ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت کو اپنی عہدے کی تقریب حلف برداری کے موقع پر نئی دہلی میں مدعو کیا۔ ان میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف اور نیپال کے وزیر اعظم بھی شامل تھے۔ مودی کے ایجنڈے میں نیپال کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت کے پہلے سال یعنی2014ء میں نیپال کا دو دفعہ (اگست اور نومبر) دورہ کیا۔ رواں مئی کے آخری ہفتے میں وہ مہاتما بدھ کی پیدائش کے موقع پر تقریبات میں حصہ لینے کے لیے تیسری بار نیپال کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا، جس کا تازہ ترین ثبوت نیپالی صدرکے دورہ بھارت کی منسوخی ہے۔ بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کانگرس وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جنہوں نے نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخل کی پالیسی اپنا کر بقول ان کے نیپال کو بھارت سے دور اور چین کے نزدیک کر دیا ہے۔