"DRA" (space) message & send to 7575

بھارت کے ریاستی انتخابات اور سیاسی رجحانات... (1)

گزشتہ ماہ سے مرحلہ وار ہونے والے بھارت کی پانچ ریاستوں (صوبوں) کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ ان ریاستوں میں مغربی بنگال اور تامل ناڈو جیسی بڑی اور کیرالا اور آسام جیسی چھوٹی اور پانڈچری کی یونین ٹیرٹری (Union Territory) شامل ہیں۔ بھارتی میڈیا میں ان انتخابی نتائج کو تین زاویوں سے پرکھا جا رہا ہے۔ اول : ان نتائج جن میں سے بعض حیران کن بھی ہیں کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ دوئم : ان میں بھارت کی سیاست کے کون سے رجحان کی جھلک نظر آتی ہے؟ اور سوئم کیا یہ انتخابی نتائج 2019ء میں ہونے والے لوک سبھا (پارلیمانی) انتخابات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو اس مرکز کا ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ یہ اگرچہ ریاستی انتخابات تھے; تاہم حکمران جماعت بی جے پی کے لیے ان انتخابات کی بڑی اہمیت تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ برس دہلی اور بہار کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی بُری طرح ہارنے اس کے امیج کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ اس امیج کو بحال کرنے کے لیے بی جے پی کو کسی غیر معمولی انتخابی کامیابی کی ضرورت تھی اور وہ اسے ملک کے انتہائی شمال مشرقی علاقے میں واقع آسام کے ریاستی انتخابات میں حاصل ہوئی ہے۔ جہاں بی جے پی اور اُس کی اتحادی پارٹیوں نے اسمبلی کی 126 نشستوں میں سے 86 پر قبضہ کر لیا ہے۔ آسام سابقہ حکمران جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا روایتی گڑھ رہا ہے۔ گزشتہ پندرہ برس سے یہاں کانگرس کے وزیراعلیٰ ترون گوگوئی کی حکومت قائم تھی۔ 2011ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو آسام میں حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد کل ووٹوں کا صرف دو فیصد حصہ ملا تھا اور اس کی آسام اسمبلی میں صرف پانچ نشستیں تھیں لیکن 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے اپنی پوزیشن کو بہتر کر لیا اور آسام میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کے ووٹوں کی شرح 36 فیصد تھی اور اس نے آسام سے 23 لوک سبھا نشستوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ آسام میں بی جے پی کی غیر معمولی بلکہ حیران کن کامیابی کی اہمیت کا صرف یہ پہلو نہیں ہے کہ اس کے ذریعے بی جے پی نے اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف جماعت کے اہم گڑھ پر قبضہ کر لیا ہے بلکہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے آسام نریندر مودی کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش سے متصل ہونے کے باعث آسام میں بی جے پی کی حکومت بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی رہنما حسینہ واجد کی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں متعدد کامیاب کوششیں کی ہیں۔ آسام میں کامیابی سے بی جے پی کو نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ بلکہ شمال مشرقی علاقے میں پہلی مرتبہ حکومت قائم کر کے بی جے پی نے اپنے بارے میں اس دیرینہ تاثر کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھارت کے صرف اُن شمال مغربی علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے جہاں ہندی بولی جاتی ہے یا گائے کی پرستش کی جاتی ہے۔ ماضی سے موازنہ کریں تو آسام میں بی جے پی کی کامیابی حقیقتاً حیران کن نظر آتی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کے پیچھے بی جے پی کی درست حکمت عملی ہے جس کے تحت بی جے پی نے آسام میں سولو فلائٹ کی بجائے ریاست کی دو بڑی علاقائی جماعتوں یعنی آسام گاناپریشاد اور بوڈو پیپلز فرنٹ کے ساتھ اتحاد کیا اور ریاست میں انتخابی مہم ڈیڑھ سال قبل شروع کر دی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ہندو قوم پرستی کا نعرہ لگانے کی بجائے ترقی پر زور دیا اور پڑھے لکھے لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ آسام میں مسلمان ریاست کی تین کروڑ 20 لاکھ آبادی کا 34 فیصد حصہ ہیں۔ ان کا روایتی طور پر رجحان کانگرس کی طرف رہا ہے اور بی جے پی کو مسلم دشمن جماعت سمجھ کر اس سے دور رہتے تھے لیکن اس دفعہ ایک طرف بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے احتراز کیا اور دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش سے دونوں ملکوں کے درمیان جو خیرسگالی پیدا ہوئی ہے اُس نے بھی آسام کی مسلمان آبادی جن کی اکثریت بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والوں پر مشتمل ہے کو بی جے پی کے بارے میں رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آسام کے مسلمانوں نے اس دفعہ کانگرسی امیدواروں کو ووٹ دینے کی بجائے بی جے پی اور اُس کے اتحادیوں کو ووٹ دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کانگرس مقامی جماعتوں سے اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ لیکن آسام میں اس کے اہم رہنما ہمنتا بسوا شرما کا اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت کانگرس کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا باعث ثابت ہوا۔ مسٹر ہمنتا آسام کانگرس کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے اور اپنی محنت لگن اور دیانتداری کی بدولت پوری ریاست میں ہر دلعزیز تھے۔ وہ ریاستی کانگرس کے ڈھانچے میں کچھ تبدیلیاں چاہتے تھے۔ لیکن کانگرس ہائی کمانڈ یعنی کانگرس کی صدر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے اُن کی تجاویز پر کان نہیں دھرا۔ اس کے نتیجے میں ہمنتا شرما کانگرس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے اور بی جے پی کی مقامی قیادت کے ساتھ مل کر زوردار انتخابی مہم چلائی‘ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اس انتخابی مہم کے دوران 270 چھوٹے بڑے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔
آسام میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے علاوہ تامل ناڈو میں جے للتا کی قیادت میں اے آئی اے ڈی ایم کے AIADMK اور مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی قیادت میں ترانمول کانگرس TMC کی کامیابی بھی ان ریاستی انتخابات کا اہم پہلو ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی طرح تامل ناڈو میں جے للتا نے بھی کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کئے بغیر اکیلے ہی اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دی ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں جب ''مودی ویو‘‘ (Modi Wave) پورے زوروں میں تھی اُس وقت بھی ممتا بینرجی اور جے للتا نے اکیلے ہی اس کا مقابلہ کر کے پارٹی اقتدار کو قائم رکھا تھا۔ 2016ء کے ان ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی مغربی بنگال پر خاص نظر تھی اور اُس کی قومی اور مقامی قیادت مغربی بنگال میں بی جے پی کی کامیابی کے بارے میں بڑے بلندوبانگ دعویٰ کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی مغربی بنگال سے کل ووٹوں کا 17 فیصد حصہ حاصل کیا تھا۔ لیکن 2016ء کے اسمبلی انتخابات میں وہ صرف تین نشستیں حاصل کر سکی اور اُس کا ووٹ بینک گھٹ کر 10 فیصد رہ گیا ہے۔ ممتا بینرجی کی پارٹی ٹی ایم سی نے 294 کل نشستوں میں سے 211 
نشستیں حاصل کی گئیں۔ اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا تناسب 38.9 سے بڑھ کر 45 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی کی پرفارمنس کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ 2011ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے پاس کوئی سیٹ نہیں تھی اور اسے صرف چار فیصد ووٹ پڑے تھے تو 2016ء کے ریاستی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں اس کی کامیابی خاصی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
مغربی بنگال کی طرح تامل ناڈو میں جے للتا نے بھی اپنی مقامی حریف پارٹی DMK ڈی ایم اے‘ بی جے پی اور کانگرس کا مقابلہ کیا اور ریاستی اسمبلی کی کل 232 نشستوں میں سے 134 پر کامیابی حاصل کر کے ایک تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا۔ مبصرین کے نزدیک مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں بالترتیب ممتا بینرجی اور جے للتا کی کامیابی کے پیچھے تین محرکات کارفرما ہیں۔ ان دونوں رہنمائوں کی کرشماتی شخصیت‘ درست حکمت عملی اور عوامی فلاح و بہبود خصوصاً غریب طبقات کے لیے سستے اناج اور رعایتی نرخوں پر اشیائے خورونوش کی فراہمی اور ان کے مقابلے میں ایک کمزور اور بدنام اپوزیشن کی موجودگی‘ مثلاً مغربی بنگال میں جہاں تک ممتا بینرجی کی حکومت کی پرفارمنس کا تعلق ہے وہ اتنی قابل رشک نہیں ہے۔ لیکن عوام ممتا بینرجی کی لگن اور سادہ زندگی اور دیانتداری کی وجہ سے بہت عزت کرتے ہیں اس کے مقابلے میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے کانگرس سے اتحاد کر کے اپنے نظریاتی دیوالیہ پن اور سیاسی موقعہ پرستی کا ثبوت دیا۔ تامل ناڈو میں جے للتا نے صحت‘ تعلیم اور عورتوں کے تحفظ کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے انتہائی کم نرخوں بلکہ تقریباً مفت اناج فراہم کرنے کی سکیموں نے اے آئی اے ڈی ایم کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں