قومی سطح پر یعنی پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں ریاستی(صوبائی) انتخابات کے محرکات الگ ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کے نتائج قومی سطح پر سیاسی موڈ کو منعکس کرتے ہوں۔ تاہم بھارت(اورپاکستان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے) جیسے ملک میں جہاں ریاستی ڈھانچہ وفاقی ہو ‘ وفاقی اکایوں یعنی ریاستوں کی اندرونی سیاست بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت کے لیے یہ مسئلہ دو لحاظ سے بھی اہم ہے۔ ایک یہ کہ ان کی جماعت بی جے پی کو پارلیمینٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں ‘دو تہائی اکثریت حاصل ہے البتہ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی 27ریاستوں میں سے بی جے پی کی آٹھ ریاستوں میں حکومت ہے۔ باقی انہیں ریاستوں میں کانگریس یا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت قائم ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کی اکثریت مودی سرکار کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی وجہ سے حسب منشا قانون سازی نہیں کر سکتے کیونکہ بھارتی آئین کے تحت قانون سازی کے عمل میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو تقریباً برابر کے اختیارات حاصل ہیں۔ راجیہ سبھا چاہے تو وہ لوک سبھا میں منظور شدہ بل کو بلاک کر سکتی ہے اور اس کی مثال سروسز اور جنرل سیلز ٹیکس کے بارے میں ایک بل کی صورت میں موجود ہے جسے نریندر مودی کی حکومت کے اکنامک ریفارمز ایجنڈے کا ایک اہم حصہ سمجھتا جاتا ہے لیکن کانگرس نے راجیہ سبھا میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس بل کو منظور ہونے سے گزشتہ ایک سال سے روک رکھا ہے اس قسم کی دو رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مودی سرکار بھارت کی زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو اپنے کنٹرول میں لا کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ لبرل ریفارمز ایجنڈے پر عملدرآمد کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی جو کہ ایک خالصتاً وفاقی شعبہ ہے میں علاقائی ریاستوں کے کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً پاکستان نیپال بنگلہ دیش اور سرکاری لنکا کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے یا محدود کرنے میں بالترتیب پنجاب (مشرقی) بہار‘ یو پی اور اتارکھنڈ‘ مغربی بنگال اور تامل ناڈو کی اندرونی سیاست اور حکومت کی تبدیلی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس لیے مودی سرکار سمیت بھارت کی ہر یونین گورنمنٹ ریاستوں خصوصاً علاقائی ریاستوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایک گرینڈ نیشنل ویژن کے فریم ورک میں دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات کو استوار کیا جا سکے۔ نریندر مودی کے لیے ایسا کرنا اور بھی ضروری ہے کیونکہ انہوں نے مئی 2014ء میں اقتدار سنبھالتے ہی جنوبی ایشیاء کے بارے میں ایک ویژن کا اعلان کیا تھا جسے وہ خطے میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دے کر عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔
بھارت کے ان ریاستی انتخابات کے سیاسی رجحانات کے بارے میں تقریباً متفقہ رائے یہ ہے کہ ان سے انہی رجحانات کی تصدیق ہوئی ہے جو دو سال قبل مئی 2014ء کے انتخابات کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ ان میں مقامی اور علاقائی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر ہے۔ مغربی بنگال میں ترانمول کانگرس اور تامل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے کی کانگرس اور بی جے پی کے خلاف کامیابی اس رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ آسام میں بھی بی جے پی کی کامیابی دو اہم علاقائی جماعتوں کی طرف سے تعاون کی مرہون منت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کی سیاست میں علاقائیت کا رجحان تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ اگلے برس یعنی 2017ء میں آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ریاستی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ انہیں جیتنے کے لیے بی جے پی سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار بیٹھی ہے اور اسے امید ہے کہ 2014 ء میں اترپردیش کی 80 لوک سبھا نشستوں میں سے 71 پر کامیابی حاصل کر کے جو پوزیشن حاصل کی تھی اس کی بنیاد پر وہ 2017ء کے ریاستی انتخابات میں بھی کلین سویپ حاصل کر سکتی ہے لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے دہلی کی بھی تمام لوک سبھا نشستوں پر قبضہ کر لیا تھا لیکن گزشتہ برس ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئی تھی،یہی نتیجہ 2015ء میں بہار میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں برآمد ہوا تھا۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے لالو پرشاد یادیو کی راشٹریا جنتا دل اور نتیش کمار کی پارٹی کو شکست فارش دے کر بہار کی بیشتر لوک سبھا نشستوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مگر 2015ء کے ریاستی انتخابات میں لالو پرشاد اور نتیش کمار کے اتحاد نے بہار میں بی جے
پی کے خواب چکنا چور کر دیئے اس لئے کہ بی جے پی نے بہار میں ہندتوا اور ذات پات کی سیاست پر انحصار کیا تھا۔ مگر حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی حکمت عملی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کانگرس کے برعکس اس نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ اسے اب معلوم ہو گیا ہے کہ اگر اس نے بھارت کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں قدم جمانے ہیں تو اسے انتہا پسند ہندو سیاست کا انداز اور مسلم دشمنی یا پاکستان کے خلاف نعروں کو ترک کرنا پڑے گا۔ یہاں لسانی بنیادوں پر قائم قوم پرستی ایک مضبوط سیاسی قوت ہے۔ کوئی بھی پارٹی جو بھارت کے ان علاقوں میں اپنی سیاسی موجودگی کا خواہاں ہے اسے یا تو لسانی قوم پرستی کی نمائندہ مقامی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑے گا یا پھر معاشی اور سماجی ترقی کا پروگرام پیش کرنا پڑے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مغربی بنگال اور تامل ناڈو کے ریاستی انتخابات کے نتائج میں جو سب سے اہم پیغام پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ ویلفیئر پالیٹکس انتخابی سیاست میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
ان ریاستی انتخابات کے نتائج سے ایک اور بات جو واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ کانگرس بدستور زوال کا شکار ہے۔ 2014ء میں بی جے پی کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھانے کے بعد کانگرس سنبھل نہیں سکی۔ حالیہ ریاستی انتخابات میں پانڈی چیری کے علاوہ اسے تمام انتخابی معرکوں میں شکست ہوئی ہے۔ پانڈی چیری اسمبلی کی 30 نشستوں میں سے کانگرس کے 15 امیدوار کامیاب ہوئے۔ لیکن کیرالہ میں جہاں اس سرکردگی میں قائم یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ برسر اقتدار تھا، لیفٹ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی۔ اسے 140 کل ریاستی نشستوں میں صرف 22 پر کامیابی ہوئی، مغربی بنگال میں کانگرس نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے اتحاد کر کے ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس ٹی ایم سی کا مقابلہ کیا۔ مگر بری طرح شکست کھائی مغربی بنگال کے انتخابی نتائج کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ انتخابات کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کے اتحاد نے ہارے نہیں بلکہ ممتاز بینرجی کو بنگالی پیار سے ''دیدی‘‘ کہتے ہیں‘ نے جیتے ہیں اور اس کامیابی میں جہاں ان کی ذاتی خوبیوں کا دخل ہے۔ وہاں ان اقدامات نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو ممتا بینرجی کی حکومت نے گزشتہ پانچ برس کے دوران غریب اورضرورت مند لوگوں کے لیے کئے ہیں۔ ان میں دو روپے فی کلو گرام چاول کی فروخت طلباء کو مفت سائیکلوں کی فراہمی اور تعلیم جاری رکھنے کی خواہش مند عورتوں کے لیے معقول ماہانہ وظیفے کی فراہمی‘ مغربی بنگال میں ممتا بینرجی اور تامل ناڈو میں جے للتا کی کامیابی نے بھارتی انتخابی تاریخ (پاکستان کو بھی اس میں شامل کر لیجیے) کی ایک اہم روایت کو توڑ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو پارٹی پہلے سے برسر اقتدار ہو اس کو آئندہ مدت کے لیے کامیابی مشکل سے ملتی ہے ۔ مغربی بنگال میں ترانمول کانگرس کی حکومت کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ چونکہ ممتاز بینرجی نے 2011ء میں جو وعدے کئے تھے ان میں سے بیشتر پورے نہیں کئے جا سکے۔ اس لیے اس دفعہ مغربی بنگال میں تبدیلی ناگزیر ہے لیکن ''دیدی‘‘ نے جرأت مندانہ قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بی جے پی کے حلے کو پسپا کیا بلکہ کانگرس اور لیفٹ فرنٹ کو بھی شکست دی تامل ناڈو میں گزشتہ تیس برس میں کسی حکومت نے متواتر دو مدتیں پوری نہیں کی تھیں لیکن جے للتا نے مسلسل دوسری بار انتخاب جیت کر ریکارڈ قائم کیا ہے۔ (جاری)