"DRA" (space) message & send to 7575

بھارت کے ریاستی انتخابات اورسیاسی رجحانات(3)

کیا اپریل۔ مئی2016ء میں ہونے والے بھارت کے پانچ ریاستی انتخابات کے نتائج 2019ء کے پارلیمانی (لوک سبھا) کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ماضی کا ریکارڈ کیا ہے ؟اگر ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی موجودہ حکومت سے قبل کانگرس حکومتوں(یو پی اے) کے دور کا جائزہ لیں تو معلوم ہو تا کہ ریاستی انتخابات میں کامیابی قومی (پارلیمانی) انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیںہوتی۔ مثلاً 2004ء میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں جب کانگرس کی حکومت تشکیل پائی تو اس کے بعد 30کے قریب ریاستی انتخابات میں کانگرس کو 16میں شکست ہوئی۔ اپنی پہلی مدت کے آخری سال یعنی 2008ء میں کانگرس کو 6ریاستی انتخابات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے باوجود 2009ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگرس نے اپنی حریف جماعت بی جے پی کو شکست دے دی۔2012ء میں بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کل403نشستوں سے صرف 47نشستیں جیت سکی۔ لیکن دو سال بعد یعنی2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اتر پردیش میں لوک سبھا کی 80نشستوں میں سے 71پر قبضہ کر کے کانگرس اور مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی کا صفایا کر دیا۔ اتر پردیش کی طرح بی جے پی کو 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں دہلی اور بہار میں بھی زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن ایک سال سے بھی کم عرصہ کے بعد جب ان دونوں ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو بی جے پی کو دہلی میں ''عام آدمی پارٹی‘‘ اور بہار میں لالو پرشاد اور نتیش کمار کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر انتخابات کے مقابلے میں ریاستی انتخابات میں جو عوامل زیادہ کارفرما ہوتے ہیں‘ ان کی نوعیت مقامی ہوتی ہے۔ ان میں لسانی مسائل‘مقامی وسائل مثلاً زمین‘ پانی اور معدنی ذخائر کی ملکیت پر جھگڑے اور لوکل گورننس جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔ ہر ریاست کے لوگ ریاستی سطح پر لیڈر شپ کا چنائو کرتے وقت ان مسائل کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں جو ضروری نہیں کہ قومی سطح پر ان کے فیصلے کے مطابق ہو۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت(پاکستان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے) میں مرکز اور ریاستوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اگر کسی ریاست میں مرکز میں برسر اقتدار پارٹی سے الگ کسی اور پارٹی کی حکومت قائم ہو جاتی تھی تو مرکز پر قابض پارٹی کی حکومت حیلے بہانوں سے ریاست میں صدر راج نافذ کر کے ریاست پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ کانگرس کا طویل دور حکومت اس قسم کے واقعات سے اٹا پڑا ہے جب پورے بھارت میں عملاً ون پارٹی یعنی کانگرس راج قائم تھا۔ لیکن گزشتہ تقریباً69سال کے عرصہ میں جنوبی ایشیا کی سیاست میں متعدد نئے رجحانات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 1980ء کی دہائی سے مرکز میں ایک پارٹی کی بجائے مخلوط حکومتوں کے دور کا آغاز تھا۔ اس دوران میں بھارت میں کانگرس اور اپوزیشن پارٹیوں بی جے پی یا جنتا دل کی جو بھی حکومتیں قائم ہوئیں وہ تقریباً سب کی سب مخلوط حکومتیں تھیں۔ بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً پاکستان‘ نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی یہی 
رجحان دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ(ن)‘ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ یا بی این پی‘ نیپال میں نیپالی کانگرس یا کمیونسٹ پارٹی(مارکسسٹ لیننسٹ ) اور سری لنکا میں فریڈم پارٹی یا یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کی اس عرصہ کے دوران میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں‘ وہ سب کی سب مخلوط حکومتیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ عوام کی جانب سے ون پارٹی رول میں آمرانہ رجحانات کے خلاف چیکس اینڈ بیلنس(Checks and Balance) کے اصول کا اطلاق تھا ‘لیکن بھارت میں 2014ء کے انتخابات کے نتائج اس رجحان کی نفی کرتے ہیں اور سابقہ انتخابات کے برعکس 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اتنی نشستیں جیت لیں جو اسے اکیلے ہی حکومت سازی کے لیے درکار تھیں۔ ہو سکتا ہے اس میں نریندر مودی کی شخصیت یا کانگرس کی مبینہ بدعنوانیوں کا دخل ہو‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگرچہ بھارت میں مرکزی حکومت این ڈی اے (نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس ) کہلاتی ہے مگر بی جے پی کے پاس اکیلے لوک سبھا کی اتنی نشستیں ہیں کہ وہ اپنی حکومت کی بقاء کے لیے اپنی کسی اتحادی پارٹی کی محتاج نہیں۔ تاہم اس کے خلاف ردعمل کے طور پر ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتوں کے قیام کا رجحان پیدا ہوا ہے‘ جسے علاقہ پرستی یا ریجنل ازم کا نام دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے نزدیک مرکز میں بی جے پی کی مضبوط حکومت کی صورت میں بھارت میں علاقہ پرستی کا رجحان تقویت پکڑے گا کیونکہ بی جے پی کا سیاسی فلسفہ مضبوط مرکز کی حمایت پر مبنی ہے ۔ بی جے پی جب بھی برسر اقتدار آتی ہے تو ان ریاستوں میں جہاں صوبائی خود مختاری کے مضبوط رجحانات پائے جاتے ہیں‘ کھلبلی مچ جاتی ہے کیونکہ بی جے پی اندر سے صدارتی نظام اور ایک ایسے وفاقی ڈھانچے کے حق میں ہے جس میں مرکزی حکومت کو خارجہ معاملات میں ہی نہیں بلکہ اندرونی مسائل پر بھی اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی سہولت حاصل ہو۔ نریندر مودی کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی دو سال ہوئے ہیں لیکن اس دوران انہوں نے بعض ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن سے ان کی مضبوط مرکز کے حق میں سوچ جھلکتی ہے‘ ان میں اترکھنڈ میں صدر راج کے نفاذ کا اقدام بھی شامل ہے۔ جہاں تک پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابی نتائج کا تین سال بعد ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات پر اثر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مبصرین کی رائے یہ ہے کہ ان کا 2019ء کے پارلیمانی انتخابات پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا‘کیونکہ مرکز میں بی جے پی کو چیلنج کرنے والی کوئی بڑی پارٹی موجود نہیںہے ۔ جہاں تک گرینڈاولڈ پارٹی یعنی کانگریس کا تعلق ہے،توجب تک نہرو خاندان اس کی قیادت پر قابض ہے‘ کسی بھی انتخابی معرکے میں خواہ وہ ریاستی سطح کا ہو یا قومی سطح کا کانگرس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔2014ء کے انتخابات میں کانگرس نے بی جے پی کے ہاتھوں جس بُرے طریقے سے شکست کھائی تھی‘ اس کا اثر اب بھی باقی ہے اور کانگرس اس کاری ضرب سے ابھی تک نہیں سنبھل سکی۔ جہاں تک بائیں بازو کی پارٹیوں کا تعلق ہے‘ تو وہ بھی بی جے پی کے لیے خطرے کا باعث نہیںکیونکہ مغربی بنگال کے حالیہ ریاستی انتخابات میں انہوں نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کے باوجود ممتا بینرجی کی پارٹی سے بری طرح شکست کھائی۔ بھارت میں بائیں بازو کی سیاست مسلسل زوال کا شکار چلی آ رہی ہے اور جب تک بائیں بازو کی پارٹیاں ملک کے موجودہ حالات اور عوام کو درپیش مسائل کا صحیح تجزیہ کر کے اپنی حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لاتیں‘ انتخابی سیاست میں ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ چند ریاستوں‘ جیسے کیرالا میں ان کی سیاسی موجودگی مقامی حالات خصوصاً کانگرس کی بیڈ گورننس کی وجہ سے برقرار رہ سکتی ہے۔
جو بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ریاستی انتخابات2019ء کے پارلیمانی انتخابات پر زیادہ اثر نہیں ڈالیں گے۔ البتہ ان انتخابات میں بعض نمایاں کامیابیاں حاصل کر کے بی جے پی آئندہ تین برسوں میں ہونے والے ریاستی انتخابات جیتنے کے لیے زیادہ اعتماد ‘ جوش اور ولولے کا مظاہرہ کرے گی۔ ان میں اتر پردیش(UP)میں آئندہ سال ہونے والے ریاستی انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ انتخابات بی جے پی کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ انہیں جیتنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی تاکہ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی اس سب سے بڑی ریاست پر قبضہ کر کے وہ راجیہ سبھا میں اپنی نشستوں میں اضافہ کر سکے جو کہ اسے ملک پر بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کرنے کے لیے درکار ہے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں