"DRA" (space) message & send to 7575

احتجاجی سیاست

احتجاجی جلسے، جلوس، دھرنے اور ہڑتالیں پاکستان کے سیاسی کلچر کا ایک مستقل فیچر بن چکے ہیں اور اسے پروان چڑھانے میں صرف اپوزیشن کا ہی ہاتھ نہیں بلکہ موجودہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا وتیرہ یہ ہے کہ مسائل جوں کے توں پڑے رہتے ہیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی حتّٰی کہ عوامی نمائندے بھی اپنے فورم سے حکومتوں کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرواتے ہیں، لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب متاثرین کے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔اس سے صورت حال بہتر نہیں ہوتی بلکہ مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔نہ صرف عام شہریوں اور کاروباری لوگوں کو دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ پولیس اور سرکاری کارندوں کی طرف سے صورت حال کو کنڑول کرنے کے لئے تشدد اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے طاقت کے استعمال سے متاثرین کی زبوں حالی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لاہور اور پشاور میں نرسوں اور اساتذہ کی طرف سے اپنے جائز مطالبات کے حق میں مظاہرہ،کراچی میں پانی کی قلت کے خلاف عام شہریوں کا احتجاج اوراس قسم کے مزید سینکڑوں احتجاجی جلسے اور جلوس اسی حقیقت کی غماضی کرتے ہیں کہ حکومت مسائل کو حل کرنے کے لئے بر وقت اور موثر اقدام کرنے کی اہل نہیں،بلکہ اْس وقت تک انتظار کرتی ہے جب تک کہ پانی سر سے نہ گزرجائے۔
دوسری طرف حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں اور جونہی ایسا موقع ہاتھ آئے جو بیشتر صورتوں میں حکومت خود فراہم کرتی ہے، حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کردیا جاتا ہے۔اب اسی قسم کا اعلان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کیا ہے۔اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اْنہوں نے کہا ہے کہ وہ 
عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تیار رہیں۔اس سے قبل وہ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران اپنی تقریر میں بھی اس قسم کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔ اْنہوں نے کہا تھا کہ حکومت اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپوزیشن کو سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کرے، اپوزیشن کے پاس یہ آپشن موجود ہے۔پیپلز پاٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پیپلز پارٹی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) پر تنقید کے تیز اور تْند تیر برسا کر ماضی میں اپنے اوپر فرینڈلی اپوزیشن کے الزام کو دھونا چاہتی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت رویہ اختیار کرنے کی صرف یہی وجہ نہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی دی ہے۔ وہ اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کرچکے ہیں کہ حکومت کے خلاف تحریک کی تیاری پکڑیں جو کسی وقت بھی شروع کی جاسکتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے بھی 17جون کو لاہور میں مال روڈ پر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔اس میں شرکت کے لئے وہ خود بھی لاہورآ چکے ہیں۔ یہ دھرنا ماڈل ٹائون میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے14کارکنوں کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقعہ پر دیا جا رہا ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے وزیراعلیٰ شہبازشریف کی پنجاب حکومت پر تنقید اور ماڈل ٹائون کے سانحے کے بارے میں پیش رفت نہ ہونے کے سبب احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ علامہ طاہر القادری کا احتجاج صرف مال روڈ پر دھرنے تک محدود رہے گا یا اسے بنیاد بنا کر وہ 2014ء کی تاریخ دہرائیں گے۔ اس بارے میں طاہرالقادری کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا؛ البتہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رْکن شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ اس دفعہ عمران خان اور علامہ 
طاہرالقادری اکھٹے نہیں ہوںگے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ طاہرالقادری کینیڈا کی ٹھنڈی فضائوں کو چھوڑکر لاہورکی تپتی مال روڈ پرگرم لْو کے تھپیڑے صرف دھرنے کی خاطر سہنے کے لئے پاکستان نہیں آ رہے بلکہ شواہد بتاتے ہیںکہ ان کے ایجنڈے میں اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔ اس امکان کو شیخ رشید احمد کی دیگر کہی ہوئی باتوں سے بھی تقویت ملتی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ موجودہ حکومت کی سیاسی فاتحہ خوانی پڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2016ء کا سال پورا نہیں کرسکے گی۔ اس قسم کی پیش گوئی عمران خان بھی کرچکے ہیں۔ شیخ رشید اس سے پہلے بھی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں جن کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تاہم اس دفعہ اْنہوں نے اپنی سٹریٹجی تبدیل کی ہے اور اب وہ صرف پیش گوئیاں کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کو سچ ثابت کرنے کے لئے منصوبہ بندی بھی ہاتھ میں لے لی ہے۔ مثلًا اْنہوں نے کہا ہے کہ اس دفعہ عمران خان اور طاہر القادری ایک ساتھ نہیں ہوںگے بلکہ الگ الگ حکومت مخالف تحریک کا آغاز کریں 
گے۔ دوسرے وہ پیپلز پارٹی پر انحصار کر رہے ہیں۔ اْنہیں اْمید ہے کہ اس دفعہ طاہر القادری کی جگہ پیپلز پارٹی لے گی اور یہ عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ مل کر نوازشریف حکومت کے خلاف تحریک چلائے گی۔شیخ رشید احمد کی طرف سے نوجوان اور پْر جوش بلاول بھٹو زرداری کی تعریف اور اْس سے وابستہ توقعات کے اظہار کو اسی پیرائے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خیر سگالی اور ماضی کے برعکس ایک دوسرے پر حملوں سے احتراز بھی معنی خیز ہے، لیکن شیخ رشید اگر یہ سمجھتے ہیںکہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کی حکومت کو اس وقت در پیش مشکلات سے فائدہ اْٹھا کرپیپلز پارٹی عمران خان کی تحریک انصاف سے مل کر حکومت مخالف تحریک چلائے گی جو شیخ صاحب کی خواہش کے مطابق ن لیگ کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہو، تو شاید یہ ان کی بْھول ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے حکومت پر اپنا دبائو جاری رکھے گی اور اس میں وزن پیدا کرنے کے لئے تحریک انصاف کی ہاں میں ہاں ملانے پر بھی تیار ہوگی، لیکن کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جو موجودہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل کسی سیاسی تبدیلی کا باعث بنے کیونکہ پارٹی کے بعض رہنمائوں کو 1993ء کی اْس غلطی کا احساس ہے جب پیپلز پارٹی نے وزیراعظم محمد نوازشریف کے خلاف صدر غلام اسحاق کا ساتھ دیا تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں کمی میں اس اقدام کا بہت حصہ ہے اور اگر اس دفعہ پھر پیپلز پارٹی نے سیاسی موقع پرستی کا مظاہرہ کیا تو ملک کے اس سب سے بڑے (آبادی کے لحاظ سے) صوبے سے جسے ذوالفقار علی بھٹو سیاسی قوت کا مرکز کہتے تھے، پیپلز پارٹی کو ہمیشہ کے لئے دیس نکالا مل جائے گا۔
لیکن شیخ رشید نہ صرف عمران خان اور طاہرالقادری کو یقین دلا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جڑیں اندرسے کھوکھلی ہوچکی ہیں اور ایک ہی دھکے میں وہ دھڑام سے نیچے آجائے گی، بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی باور کرا رہے ہیں کہ ن لیگ سے حساب کتاب برابر کرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور اگر پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے اکھڑے ہوئے قدم جمانا چاہتی ہے تو اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے کئی دفعہ ہو چکا ہے اس دفعہ بھی کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں اورکانسپیریسی تھیوریزکا بازارگرم ہے۔
ان افواہوں اور کانسپریسی تھیوریز کے مطابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت سے فوج ناراض ہے اور دونوں کے درمیان مختلف اندرونی اور بیرونی امور پر اختلافات کے خلیج وسیع ہو رہی ہے۔ ان امور میں کرپشن خصوصاًََ پاناما لیکس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی طرف حکومت کی سست روی اور ڈرون حملوں میں ملا اختر منصور کی ہلاکت پر حکومت کی طرف سے مناسب ردِعمل کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے اردگرد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے ملک کی نیشنل سکیورٹی کے بارے میں نئے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب، متحدہ امارات اور قطر کے ساتھ قریبی تعلقات کے قیام کی کوششیں شامل ہیں۔ افواہیں پھیلانے والوں کے مطابق فوج ان واقعات کی ذمہ داری حکومت پاکستان کی کمزور سفارت کاری پر ڈال رہی ہے۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خارجہ تعلقات کے شعبے میں حکومت اور فوج چند امور پر مختلف رائے رکھتے ہیں، تو یہ ایک آئینی طور پر جائز، منتخب اور نمائندہ حکومت کا بستر بوریا گول کرنے کا جواز نہیں بن سکتا اور نہ ہی ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز اور علاقائی اور بین الاقومی سطح پر موجودہ حقیقتوں کی روشنی میں قرین قیاس نظر آتا ہے۔ اس لیے اول تو2014ء کی طرح حکومت کے خلاف کسی تحریک کا کوئی امکان نہیں اور اگر عمران خان نے شیخ رشید کا ایک دفعہ پھر مشورہ مان کر غلطی بھی کی، تو اسے پہلے کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں