"DRA" (space) message & send to 7575

یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے مضمرات

1957ء میں جب چھ (6) یورپی ممالک (فرانس‘ نیدرلینڈ‘ اٹلی‘ مغربی جرمنی‘ بیلجیم اور لکسمبرگ) نے معاہدہ روم پر دستخط کر کے یورپی مشترکہ منڈی FCC کی بنیاد رکھی تو امریکہ اور اس کے قریبی مغربی ممالک نے‘ جن میں برطانیہ پیش پیش تھا‘ اس کا مذاق اڑایا تھا۔ لیکن فرانس کے صدر ڈیگال کی قیادت میں جب ایک مشترکہ یورپی منڈی کا قیام نہ صرف ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگا‘ بلکہ اس کی رکنیت میں دیگر یورپی ممالک بھی دلچسپی کا اظہار کرنے لگے تو برطانیہ بھی اس میں شامل ہونے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ لیکن چارلس ڈیگال کسی قیمت پر بھی برطانیہ کو یورپی مشترکہ منڈی کا رکن نہیں بننے دینا چاہتے تھے۔ وہ برطانیہ کو ''ٹروجن ہارس‘‘ کا نام دیتے تھے۔ اُن کے خیال میں برطانیہ اپنے آپ کو ایک یورپی ملک نہیں سمجھتا۔ وہ یورپ سے زیادہ امریکی مفادات کا علمبردار ہے جو کبھی بھی یورپ کو ایک آزاد متحد اور طاقتور بلاک کے طور پر نہیں ابھرنے دے گا۔ جب تک ڈیگال فرانس کے سربراہ رہے۔ انہوں نے برطانیہ کو یورپی مشترکہ منڈی میں گھسنے نہ دیا۔ برطانیہ نے تین دفعہ رکنیت کے لیے درخواست دی ڈیگال نے تینوں دفعہ اس کی کوشش کو ویٹو کر دیا۔ بالآخر 1973 ء میں برطانیہ یورپی مشترکہ منڈی کا رکن بننے میں کامیاب ہو گیا۔ 1973ء سے 2016ء تک کے طویل عرصہ میں یورپی مشترکہ منڈی‘ یورپی یونین میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے اراکین کی تعداد پانچ سے اٹھائیس ہو گئی۔ ایک مشترکہ کرنسی (یورو) آزادانہ تجارت اور بغیر ویزے کے شہریوں کی رکن ممالک میں آمدورفت اور ایک مشترک خارجہ پالیسی اور ایک مشترکہ پارلیمنٹ اور سٹرکچر یورپی یونین کی اہم کامیابیاں ہیں۔ معاشی اعتبار سے یورپی یونین دنیا کا سب سے بڑا ٹریڈنگ بلاک ہے اور سرمایہ کاری‘ گڈز اور سروسز کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف زبانیں بولنے والے لیکن ایک ہی تہذیب‘ ثقافت‘ سماجی اقدار اور لبرل جمہوری نظام کی بنیاد پر یورپی یونین کے قیام کو علاقائی تعاون کی دنیا میں سب سے کامیاب مثال قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن مبصرین کی رائے میں برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی یونین کو زبردست دھچکا لگا اور اس کا مستقبل مخدوش ہو گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن وجوہ کی بنا پر برطانیہ کے آدھے سے زیادہ رائے دہندگان نے علیٰحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ وجوہ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھی موجود ہیں۔ یورپی معیشت پچھلے چند برسوں سے زبردست کساد بازاری کی شکار چلی آ رہی ہے اور اس کے زیر اثر مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر یورپی ملکوں کا متوسط طبقہ ہواہے ایک طرف بڑے سرمایہ داروں‘ صنعتکاروں ‘بینکاروں اور ان کے حامی سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف یورپی متوسط طبقہ خاص طور پر پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان اپنی تمام تر مشکلات کا سبب تارکین وطن کو قرار دے رہے ہیں۔ برطانیہ کے علاوہ فرانس‘ جرمنی‘ ڈنمارک‘ نیدرلینڈ‘ اور اٹلی میں بھی انتہائی دائیں بازو کے خیالات کی حامی تنظیمیں موجود ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں تارکین وطن کی روز افزوں آمد کو معیشت‘ ثقافت‘ اقدار‘ اور قومی شناخت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلے پر ان تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان سب کی زندگی اور قسمت کو متاثر کرنے والے فیصلے ان کے اپنے وطن کی بجائے یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر برسلز میں ہو رہے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ برطانیہ میں علیحدگی کے حق میں فیصلے نے یورپی یونین پر سکتہ طاری کر یا ہے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ یورپ اور خود برطانیہ میں اس فیصلے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل امریکہ کے صدر بارک اوباما اور خود برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی رائے دہندگان کو یورپی یونین میں رہنے کے حق میں فیصلہ دینے کی اپیل کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین اس وقت سخت مشکلات کے دور سے گزر رہی ہے۔ کساد بازاری اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یونان کے قرضوں کا مسئلہ بدستور حل طلب ہے۔ روس آنکھیں دکھا رہا ہے اور یوکرین کے مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ایسے وقت میں برطانیہ کا چلے جانا جو جرمنی کے بعد یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں معیشت یورپ کی ایک ایٹمی طاقت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک ہے۔ یورپی یونین کی طاقت‘ عزت اور وقار کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ بہت سے ذہنوں پر یہ سوال سوار ہے کیا برطانیہ کی علیحدگی کے بعد یورپی یونین اپنا وجود قائم رکھ سکے گی؟
یہی سوال برطانیہ کے مستقبل کے بارے میں بھی اٹھایا جا رہا ہے کیونکہ یورپی یونین کی رکنیت چھوڑنے یا برقرار رکھنے کے سوال پر ریفرنڈم کے نتائج نے برطانیہ کے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ اس کے مختلف جغرافیائی خطوں کے درمیان بھی واضح فاصلہ اور شدید اختلاف رائے کو اجاگر کر دیا ہے۔ مثلاً دولت اور آسائشوں سے مالا مال امیر طبقات یورپی یونین میں رہنے کے حق میں تھے جبکہ کساد بازاری اور بیروزگاری سے ستائے ہوئے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں نے یورپی یونین سے نکل جانے کے حق میں ووٹ کی کامیابی پر جشن منایا ۔ اس طرح ویلز میں لوگوں کی اکثریت نے یونین چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ سکاٹ لینڈ میں 62 فیصد ووٹ یونین کی رکنیت بحال رکھنے کے حق میں پڑے۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں یورپی یونین چھوڑنے کے بعد سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کا مطالبہ زور پکڑ جائے گا اور خیال ہے کہ یہی رجحان شمالی آئرلینڈ میں تقویت پکڑے گا۔
اس طرح برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اکتوبر میں عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ دوسری طرف لیبر پارٹی آپس میں مختلف حصوں میں بٹی ہونے کی وجہ سے موثر قیادت فراہم کرنے کے قابل نہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے سامنے کوئی واضح راستہ نہیں۔ ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ کے لاتعداد ممالک جن کے برطانیہ کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات یورپی یونین کے وضع کردہ خصوصی فریم ورک کے دائرہ کے اندر قائم تھے‘ اب برطانیہ کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر نئی شرائط پر تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کریں گے یہ عمل نہ صرف دقت طلب ہے بلکہ اس کے حتمی نتائج کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کے تحت علیٰحدگی کے عمل کو مکمل ہونے میں دو سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس کے دوران میں نہ صرف برطانیہ اور یورپی یونین بلکہ پوری دنیا غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے گی۔ اس غیر یقینی صورتحال کی جو معاشی قیمت چکانا پڑے گی برطانیہ یورپی یونین اور دنیا کے دیگر حصوں میں اس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ برطانوی پائونڈ کی قیمت گر کر 1985ء کی سطح پر آ چکی ہے اور یہی حال ''یورو‘‘ کا ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جس کے سٹاک کی قیمت اس اہم فیصلے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ برطانوی عوام کا یہ فیصلہ اچانک اور غیر متوقع طور پر آیا ہے‘ خود برطانیہ میں لوگ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ریفرنڈم کے دوران رکنیت بحال رکھنے کے حق میں مہم زوروں پر تھی اور برطانیہ کے ہر شہر کی گلی کوچوں میں ریفرنڈم کے حق میں بڑے بڑے بینر آویزاں تھے۔ خود علیحدگی کے حق میں مہم چلانے والے حلقے اس فیصلے کی امید نہیں رکھتے تھے کیونکہ برطانیہ نے بڑی جدوجہد اور تگ و دو کے بعد یورپی یونین کی رکنیت حاصل کی تھی۔ اگرچہ ملک میں فیصلہ سازی کے اختیارات بتدریج برسلز منتقل ہونے سے برطانیہ کے روایتی قوم پرست حلقوں میں رکنیت کے خلاف رجحانات تقویت پکڑ رہے تھے اور خود کنزرویٹو پارٹی کا ایک بااثر حصہ یورپی یونین میں برطانوی رکنیت بحال رکھنے کے حق میں نہیں تھا ؛تاہم علیحدگی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد برطانیہ کے مالی اور سیاسی حلقوں میں جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی معیشت اور سیاسی قیادت اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں دوبارہ ریفرنڈم کے لیے مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس کے لیے بیس لاکھ افراد نے پٹیشن پر دستخط بھی کئے ہیں۔
تاہم اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ علیحدگی کے فیصلے کو واپس لے لیا جائے گا بلکہ اس کے برعکس وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس عمل کو جلدی سے جلدی مکمل کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے دوسری طرف یورپی یونین کے پانچ بانی رکن ممالک نے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے عمل کو بلاتاخیر مکمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ یورپی ممالک اور عالمی برادری غیر ضروری طور پر ایک لمبے عرصے کے لیے غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا نہ رہے ۔یورپ اور برطانیہ کے درمیان صدیوں سے بے اعتباری‘ بدگمانی اور بے وفائی کے جو خدشات چلے آ رہے تھے اس فیصلے نے اُن کو تازہ کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں