آزاد جموں و کشمیر، جو آئینی طور پر نہ تو پاکستان کا حصہ ہے اور نہ ہی ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے، گزشتہ کئی ہفتوں سے مجلس قانون ساز کے 41ممبران کے انتخابات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس عمل میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں، پاکستان مسلم لیگ(ن) جو کہ مرکز میں برسر اقتدار ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی جس کی آزاد کشمیرمیں حکومت ہے، نمایاں طور پر حصہ لے رہی ہیں۔ اس معرکے میں نہ تو آزاد کشمیر کی کوئی مقامی پارٹی اور نہ ہی کوئی سرکردہ مقامی رہنما نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے، بلکہ ان دونوں پارٹیوں کے مرکزی رہنما، جن میں ایک طرف وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرویز رشید اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کے سابق دور میں وزیر اطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ لیڈ رول ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح عملی طور پر یہ الیکشن آزاد کشمیر کا کم اور پاکستان کا زیادہ نظر آتا ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے لیے الزام تراشی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے انتخابی مہم میں اتنی تلخی پیدا ہو چکی ہے کہ دونوں پارٹیوں کے کارکنوں میں تصادم کی نوبت تک آ پہنچی۔ اس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ایک درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سانحہ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے‘ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ غالباً یہی صورت حال ہے جس کا اندازہ لگا کر آزاد کشمیر کو ایک عرصہ تک پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے لیے آف لمٹ (off limit)رکھا گیا تھا۔ پورے پچیس برس تک آزاد کشمیر کے انتخابات میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو نہ تو حصہ لینے کی اجازت تھی اور نہ وہ آزاد کشمیر میں اپنی شاخ کھول سکتی تھیں۔ لیکن 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو آزاد کشمیر میں کام کرنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ آج آزاد کشمیر ریاست اور وفاق، دونوں میں برسر اقتدار پارٹیوں کے درمیان الیکشن کے موقعہ پر عوام کو درپیش اصل مسائل سے ہٹ کر جس طرح چپقلش جاری ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کو پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے لیے آئوٹ آف بائونڈ ایریا قرار دینا درست فیصلہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ریاست کے مقامی مسائل اور ان کے حل کے لیے لائحہ عمل پر بات کرنے کی بجائے‘ وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔''جو مودی کا یار ہے۔ قوم کا غدار ہے‘‘ بلاول بھٹو زرداری کی خدمت میں عرض ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں شخصی یاری دوستی کی کوئی گنجائش نہیں، صرف قومی مفاد ہی ان کی بنیاد ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر اور دیگر تنازعات کے باوجود پاکستان میں ہمسایہ ممالک بشمول بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام، جو بھارتی قبضہ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے‘ بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات اور امن کے قیام کے حامی ہیں کیونکہ اس میں ہی خطے کے تمام عوام کے ہمراہ کشمیریوں کا بھی بھلا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ اچھے تعلقات اور امن کا قیام‘کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کا باعث بنیں۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن اور تنازعات کے حل کی خاطر ‘ دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوشش غداری نہیں ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر اور مشیر جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت پر ذاتی حملے کر رہے ہیں اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات آزاد کشمیر میں نہیں ہو رہے بلکہ لاہور اور فیصل آباد کے گلی کوچوں میں لڑے جانے والے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے اپنے مخالفین پر جس طرح کیچڑ اچھالا جا رہا ہے اس سے ایک بات تو واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پارٹی نے نہ صرف کبھی اپنی صفوں میں تنظیم اور ڈسپلن پر توجہ دی ہے اور نہ اپنے ورکرز کو کبھی اخلاق اور شائستگی کا سبق سکھایا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات قومی انتخابات نہیں بلکہ ریاستی انتخابات ہیں۔ اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ریاستی سطح پر مسابقت ہونی چاہیے۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی، دونوں کی مقامی تنظیموں کو انتخابی مہم میں آگے آگے ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس مقامی قیادت کی جگہ ان پارٹیوں کی قومی قیادت نے لے لی ہے۔ اور ایک ریاستی الیکشن کو قومی پارلیمانی انتخابات کے طور پر لڑا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی بھی آزاد کشمیر کے عوام کو درپیش اصل مسائل کی بات نہیں کرتا۔ مثلاً قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور آزاد کشمیر کے عوام کے انتھک اور محنتی ہونے کے باوجود‘ زندگی کے ہر شعبے میں ریاست کے عوام کو میسر سہولتیں‘ پاکستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ صحت کے شعبے کو ہی لے لیجیے۔ پاکستان میں اوسطاً 1127افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے جبکہ آزاد کشمیر میں 4799افراد کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ آزاد کشمیر میں
بے روزگاری کی شرح 13فیصد ہے جو پاکستان کی قومی اوسط سے دُگنی ہے۔ ریاست میں 50فیصد لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں، اور 75فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں ٹیپ واٹر کنکشن میسر نہیں۔ دنیا ترقی کے میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن ایک آزاد کشمیر ہے جس کی معیشت کا انحصار اب بھی چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی، بھیڑ بکریوں کی پرورش اور بیرون ملک کام کرنے والے کشمیریوں کی ترسیلات زر پر ہے، حالانکہ ریاست میں ترقی کے بے پناہ مواقع اور وسائل موجود ہیں، لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ مثلاً ریاست کے 87فیصد خاندان اوسطاً 5.3ایکڑ پر مشتمل چھوٹے چھوٹے کھیتوں کے مالک ہیں۔ انہیں کوآپریٹو فارمنگ میں تبدیل کر کے اور قرضہ فراہم کر کے نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کو ترقی دے کر دیہی علاقوں میں جہاں سب سے زیادہ غربت پائی جاتی ہے، انقلابی تبدیلی لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے سرمایہ کاری درکارہوتی ہے اور سرمایہ کاری اس لیے ناپید ہے کہ سیاسی غیر یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔آزاد کشمیر میں گزشتہ پانچ برس سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے، لیکن اس حکومت نے ریاست میں ترقیاتی کام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کا اندازہ سالانہ بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقوم سے لگایا جا سکتا ہے۔ حالیہ بجٹ جس کا کل حجم73.5بلین روپے ہے اس میں ترقیاتی بجٹ صرف12بلین روپے ہے۔ اس سے قبل پچھلے برس میں بجٹ کی کل68بلین روپے میں سے صرف11.5بلین روپے مختص کئے گئے تھے۔2005ء کے تباہ کن زلزلے نے آزاد کشمیر کے 63فیصد
علاقے اور 52فیصدآبادی کو متاثر کیا تھا۔ اس کی تباہ کاریوں کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ آزاد کشمیر میں پس ماندگی‘ غربت اور افلاس کی اصل وجوہ معاشی سے زیادہ سیاسی ہیں۔ تمام دنیا میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ایک ایسے جمہوری نظام کے بغیر، جس میں سب لوگوں کو بلا امتیاز رنگ نسل اور عقیدے کی برابری کی بنیاد پر بلا روک ٹوک براہ راست حصہ لینے کا موقع ملے‘ معاشی ترقی اور عوامی خوش حالی ممکن نہیں۔ آزاد کشمیر میں اس وقت جو سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کھڑا ہے وہ سراسر غیر جمہوری ہے۔ کہنے کو تو ایک مجلس قانون ساز موجود ہے جس کے ذریعے لوگوں کو جمہوریت کا تاثر دینے کے لیے ہر پانچ سال بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ''آزادانہ‘‘ انتخابات کروائے جاتے ہیں، لیکن اصل اختیارات کشمیر کونسل کے پاس ہیں جو کہ ایک غیر منتخب ادارہ ہے۔ اس کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہیں جنہیںآزاد کشمیر کے عوام نہیں بلکہ پاکستان کے عوام منتخب کرتے ہیں اس کے بارہ میں آدھے اراکین پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ہیں جن کے انتخاب میں آزاد کشمیر کے عوام کا کوئی ہاتھ نہیں۔ باقی چھ اراکین آزاد کشمیر کی مجلس قانون ساز کے ممبران ہوتے ہیں۔ پاکستان سے آزاد کشمیر جا کر کچھ حاضر اور کچھ سابقہ وزیروں ‘ مشیروں اور لیڈروں پر مشتمل فوج کی طرف سے ریاست کو فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آزاد کشمیر میں لوگوں کو درپیش مسائل کی اصل جڑ ریاست کا موجودہ غیر جمہوری سیاسی اور آئینی ڈھانچہ ہے، جسے ختم کر کے ایک جمہوری ڈھانچہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے اور سارے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے دعوے69سال پرانے ہیں۔ عوام ان نعروں کو سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ اصل کام عوام کو درپیش مسائل پر بات کرنا اور عوام کے سامنے ان کا حل رکھنا ہے۔ اس طرح یہ سیاسی جماعتیں‘ آزاد کشمیر کے عوام کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی بہتر طور پر خدمت کر سکیں گی۔