موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے تین برس اور دو مہینے ہونے کو ہیں۔ اس لحاظ سے اِس کی مدت ختم ہونے میں ایک سال دس ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے اور اگر ہم سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما منظور وسان کی پیش گوئیوں پر یقین کر لیں جو ان کے دعوؤں کے مطابق اکثر سچ ثابت ہوتی ہیں تو یہ مدت گھٹ کر ایک سال چار ماہ رہ جاتی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے امتیاز شیخ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بارے میں(بقول ان کے) ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہونے کے بعد، آئندہ یعنی 2018ء کے پارلیمانی انتخابات اپنی پانچ سالہ مدت سے 5،6 ماہ پہلے منعقد ہو جائیں گے۔ اگر آئندہ الیکشن کے بارے میں اِس حساب کتاب کو درست مان لیا جائے، تو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو تو اس وقت آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہونا چاہیے۔ اِس کے برعکس ایک آدھ کو چھوڑ کر ملک کی تمام بڑی پارٹیاں جن کا تعلق حزب مخالف سے ہے، حکومت کے خلاف سیاسی اور قانونی جنگ میں مصروف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کے خلاف احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے موخرالذکر کی احتجاجی تحریک میں مختصر مدت کے لیے ''دھرنے‘‘ بھی شامل ہیں۔ عمران خان ماہِ رواں میں پشاور سے اٹک اور راولپنڈی سے اسلام آباد تک دو احتجاجی ریلیاں نکال چکے ہیں اور تیسری ریلی گوجرانوالہ سے لاہور تک نکالنے کا منصوبہ ہے۔ اس کے بعد ملک کے دیگر شہروں میں بھی پی ٹی آئی کا احتجاجی ریلیاں نکالنے کا پروگرام ہے۔ ان کا مقصد بقول عمران خان کے حکومت پر پاناما لیکس پر اپوزیشن کے ٹی او آر کی بنیاد پر تحقیقات کروانا ہے جن میں اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق
آغاز خود وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اراکین جن کا نام پاناما لیکس میں آ چکا ہے،سے ہونا چاہئے۔ اس لیے پی ٹی آئی نے اِس مرتبہ اپنی تحریک کو ''تحریک احتساب‘‘ کا نام دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2014 ء کے برعکس اس دفعہ عمران خان سے الگ اپنی تحریک شروع کی ہے جسے انہوں نے ''تحریک قصاص‘‘ کا نام دے کر سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 ہلاک ہونے والے افراد کے لئے ''خون کا بدلہ خون، جان کا بدلہ جان اور سر کا بدلہ سر‘‘ مطالبے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اب تک لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چُکے ہیں۔ اور اسی ماہ کے دوران میں اس کا دائرہ ملک کے دیگر صوبوں تک بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔ پہلے کی طرح اس دفعہ بھی پی ٹی آئی کی ریلیوں کے مقابلے میں پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی مظاہروں اور ''دھرنوں‘‘ میں نہ صرف نظم و ضبط بلکہ جوش و خروش بھی زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی عوامی تحریک کے ٹیکٹکس (tactics) بھی پی ٹی آئی سے مختلف ہیں۔ ایک وقت میں ایک سے دوسرے شہر تک احتجاجی جلوس نکالنے کے بجائے مقررہ روز بیک وقت کئی شہروں میں احتجاج کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 20 اگست کو عوامی تحریک کے زیر اہتمام ''تحریک قصاص کا احتجاج صرف لاہور میں ہی نہیں بلکہ فیصل آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی منایا گیا جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک 9 جون 2014 ء میں ماڈل ٹاؤن میں دفتر تحریک منہاج القرآن کے سامنے پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ وزیراعظم نواز شریف پر بھی ڈالتی ہے اور انصاف کیلئے جنرل راحیل شریف سے مداخلت کی اپیل کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے علاوہ عوام مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی عملاً اس احتجاجی تحریک میں شریک ہو چکے ہیںاور پاکستان عوامی تحریک کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے 2016 ء کو وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا آخری سال قرار دیا ہے۔ اس سے قبل وہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں اکتوبر میں حکومت کے خاتمہ کی پیشین گوئی کر چکے ہیں۔ سیاسی محاذکے علاوہ اپوزیشن نے قانونی محاذ پر بھی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی تحریک شروع کر دی ہے۔ اِس کے تحت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں درج قومی اسمبلی کی رکنیت کے معیار پر پورا نہ اُترنے کی بنیاد پر وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کیلئے ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ یہ ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن میں دائر کیے گئے ہیں اور انہیں دائر کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ کے علاوہ جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں۔ آئندہ آنے والے دِنوں میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کا یہ احتجاج شدید صورت اختیار کر سکتا ہے۔ کیونکہ ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی نے ستمبر میں پی
ٹی آئی اور عوامی تحریک میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جماعت اسلامی جس کی قیادت کا ایک بڑا حصہ مسلم لیگ (ن) کیلئے اب بھی سافٹ کارنر رکھتا ہے بھی اُن پارٹیوں میں شامل ہو گئی ہے جنہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کیلئے ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔ اپوزیشن اور خصوصاً پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے حکومت کے خلاف تحریک یہ وقت کیوں چُنا ہے؟ اور کیا یہ احتجاجی تحریک اپنے مقاصد حاصل کر سکے گی یا 2014 ء کی طرح تِتر بتر ہو جائے گی؟ یہ دو اہم سوالات ہیں جو اس وقت اُن لوگوں کے ذہنوں میں گھوم رہے ہیں جن کی نظر پاکستان میں سیاسی اُتار چڑھاؤ پر ہوتی ہے۔ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو اس کے جواب کی طرف ہلکا سا اشارہ ہمیں پیپلز پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اعتزاز اِحسن کے ایک حالیہ بیان میں ملتا ہے۔ اس بیان میں اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر چیف آف آرمی سٹاف معمول کے مطابق نومبر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں تو وزیراعظم نواز شریف کی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی۔ 2014 ء میں عمران خان کی دھرنا سیاست کی مخالفت کرتے ہوئے، اعتزاز احسن نے فوج کی مداخلت کی سخت مخالفت کی تھی اور اُن کی سیاست کا مرکزی نُکتہ یہی رہا ہے کہ عمران خان کی نواز شریف کے خلاف چارج شیٹ درست ہے، مگر طریقہ کار غلط ہے۔ اس لیے اعتزاز احسن کے بیان سے یہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کیلئے آرمی چیف کو مداخلت کیلئے دعوت دے رہے ہیں۔ البتہ اُن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو پانامہ سیکنڈل پر صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات پر صرف جنرل راحیل ہی مجبور کر سکتے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ماڈل ٹاؤن سانحہ کی ایف آئی آر درج کروانے کیلئے آرمی چیف نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے نہ صرف پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک بھی یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت کو اپوزیشن کے ٹی او آرز کی روشنی میں پانامہ سکینڈل کی صحیح تحقیقات خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان سے ابتدا کے ساتھ مجبور کرنے مجبور کرنے کیلئے یہی مناسب وقت ہے۔ اِسی لئے احتجاجی ریلیوں اور ریفرنس کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تا ہم اِس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کو یقین ہے کہ ریفرنس حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور نہ ہی وزیراعظم نواز شریف احتجاجی تحریک سے گھبرا کر حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ شیخ رشید احمد اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مطابق یہ مقصد صرف فوج کی مداخلت سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اور اِس کیلئے یہی وقت سب سے زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2018 ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مسلسل کامیابی اور تحریک انصاف کی نا کامی نے اپوزیشن خصوصاً عمران خان کے اِس یقین کو اور بھی پختہ کر دیا ہے۔ لیکن کیا مُلک میں مارشل لاء کا کوئی امکان ہے؟ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر اِس وقت جو صورت حال ہے، اُس کے پیش نظر اِس کے بارے میں ایسے اقدام کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ خود جنرل راحیل کے کسی بیان یا اقدام سے ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ وہ سیاستدانوں کی چھٹی کروا کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ البتہ جیسا کہ کیا جاتا ہے کہ سیاست میں کسی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور کسی بھی بڑی تبدیلی کیلئے چند دن بلکہ چند گھنٹے بھی کافی مُدت ہوتی ہے اور یہاں تو ابھی تین ماہ کا عرصہ پڑا ہوا۔ جس میں ہر قسم کی سیاسی تبدیلی کے امکانات موجد ہیں، ملک میں آئین سے بالاتر اقدام کا امکان بھی موجود ہے۔
مگر یہ اقدام ناگزیر یا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر نہیں۔ احتجاجی تحریک کے مقاصد پر بھی اُن کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ طاہر القادری اور شیخ رشید نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے فوج کی مداخلت کے خواہش مند ہیں۔ پیپلز پارٹی آئین سے بالا تر اقدام کے حق میں نہیں اور ابھی تک یہ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ستمبر میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی احتجاجی تحریک میں شامل ہو گی یا نہیں، حکومت کے خلاف موجودہ احتجاجی تحریک ابھی تک تاجروں، دُکانداروں، سرمایہ داروں اور پیشہ ور گروپوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اور آئندہ ایسا ہونا ممکن بھی نظر نہیں آتا کیونکہ شہری علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو زیادہ حمایت حاصل ہے۔ انتخابات بھی سر پر ہیں۔ اس لئے اپوزیشن کی تحریک سے موجودہ حکومت اخلاقی طور پر تو کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ لیکن سیاسی طور پر اِسے کوئی بڑا دھچکا لگنے کا کوئی امکان نہیں۔