مردم شماری میں غیر معمولی تاخیر پر ازخود نوٹس کے تحت سماعت کے دوران ہی فاضل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر مردم شماری میں مزید تاخیر ہوئی تو 2018ء کے انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، کیونکہ مردم شماری کے بغیر انتخابات کا انعقاد قوم سے فراڈ کے مترادف ہوگا۔ اس سے قبل عوامی مسلم لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی کے رکن شیخ رشید احمد26 اگست کو ملتان میں ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ ملک بقول اُن کے حالت جنگ میں ہے اور ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ملک کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ اگرچہ یہ دونوں بیانات مختلف پیرائے میں دیے گئے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں‘ تاہم ملک کی سیاسی فضا میں کشیدگی اور محاذ آرائی کی کیفیت کو پاکستان کا ہر شہری محسوس کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان پاناما لیکس کی روشنی میں تحقیقات کے لیے ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ہے، جس میں بریک تھرو کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ 3 ستمبر کو لاہور میں عمران خان کی زیر قیادت شاہدرہ سے لاہور تک ''احتساب‘‘ اور راولپنڈی میں لیاقت باغ سے رحمان آباد تک طاہر القادری کی سربراہی میں ''قصاص‘‘ ریلی سے ماحول میں مزید گرمی پیدا ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت جملوں اور الزامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری کی احتجاجی تحریک کا مقصد سانحہ ماڈل ٹائون میں ہلاک ہونے والے افراد کے قصاص کا حصول ہے اور عمران خان نے بھی اپنی تقاریر میں پاناما لیکس اور ٹی او آرز کا ذکر کیا ہے؛ تاہم دونوں رہنمائوں کی تقاریر میں متعدد ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کی کوشش ہے کہ ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ 2018ء کے انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو جائے۔ غالباً اسی لیے انہوں نے نہ صرف موجودہ تحریک کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اپنے آئندہ پروگرام یعنی رائیونڈ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس کی نوبت آتی بھی ہے یا نہیں؛ یا اس کی نوعیت کیا ہو گی؛ یا اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، لیکن شیخ رشید کا نوازشریف کو یہ پیغام کہ ''تم جا رہے ہو اور میں آ رہا ہوں‘‘ اور ''تم غروب ہو رہے ہو اور میں طلوع ہو رہا ہوں‘‘ بڑا معنی خیز ہے۔ اگر وہ یہ دعویٰ 2018ء کے انتخابات کی مہم کے دوران کرتے تو قابل فہم بات تھی لیکن وہ انتخابات سے پہلے ہی ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف انتخابات کا صفحہ پھاڑ چکے ہیں بلکہ اس سے قبل پاکستان میں حکومتی تبدیلی کو بھی ناگزیر سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ شیخ رشید ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو میں 2016ء کو نوازشریف کی حکومت کا آخری سال قرار دے چکے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ رواں ماہ ستمبر یا اکتوبر موجودہ حکومت کے لیے فیصلہ کن ہونگے۔ لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا؟ اس کے بارے میں اگرچہ دونوں رہنما کھل کر بات نہیں کرتے لیکن اشاروں کنایوں میں جو بات کرتے ہیں اس سے ان کی مراد کافی واضح ہو جاتی ہے۔ مثلاً شیخ رشید کا کہنا ہے کہ دو ''شریفین‘‘ یعنی نوازشریف اور جنرل راحیل شریف میں سے کسی ایک کو گھر جانا ہے اور ساتھ ہی بڑے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ''میں جانتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف نے فیلڈ مارشل کا عہدہ قبول کریں گے نہ اپنے عہدے کی مدت میں توسیع پر راضی ہونگے‘‘ لیکن راولپنڈی کی ریلی سے خطاب کے دوران میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ گھر نوازشریف جا رہا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری تو برملا اپنی ساری امیدیں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر جنرل راحیل ریٹائر ہو گئے تو ہمیں انصاف کون دے گا؟ اپنی تقریر میں وزیراعظم نوازشریف پر انہوں نے جو الزامات لگائے ہیں وہ بھی قابل غور ہیں اور ان کے ذریعے وہ ایک خاص پیغام مخصوص حلقوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف نے قومی اسمبلی میں اداروں کے خلاف تقاریر کروائی ہیں۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ڈال کر آپریشن ضرب عضب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کریں۔۔۔۔''نوازشریف یا پاکستان‘‘۔ عمران خان نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ نوازشریف اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی بالترتیب تحریک قصاص اور تحریک احتساب نے بقول ان کے ابھی پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے اور دو مزید مراحل باقی ہیں، جن کا آغاز عید الاضحیٰ کے بعد ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں اور ان کی حلیف جماعتوں کی طرف سے حکومت پر دبائو جاری رہے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دبائو حکومت کو اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہو گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ دبائو میں اضافے کے لیے تحریک انصاف اور عوامی تحریک دونوں نے اس دفعہ اپنی حکمت عملی اور طریقے تبدیل کئے ہیں۔ ایک ہی دن، ایک جگہ غیر معینہ عرصہ کے لیے دھرنا دینے کی بجائے دونوں پارٹیوں نے مختلف شہروں سے مرحلہ وار ریلیاں نکالنے اور دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی تحریک کو صحیح معنوں میں قومی تحریک بنانے کے لیے دوسری پارٹیوں کو بھی شرکت کی دعوت دے رکھی ہے۔ چنانچہ لاہور اور راولپنڈی دونوں جگہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں نکالے جانے والی ریلیوں میں دوسری سیاسی پارٹیوں مثلاً مسلم لیگ (ق)‘ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی نے بھی شرکت کی لیکن ایک طرف ان پارٹیوں کا کوئی بھی صف اول کا رہنما لاہور اور راولپنڈی میں نکالے جانے والی ریلیوں میں شریک نہیں ہوا اور دوسری طرف میڈیا رپورٹس کے مطابق توقعات کے بالکل برعکس لاہور اور راولپنڈی دونوں مقامات پر شرکاء کی تعداد بہت کم تھی۔ اسی لیے بہت سے تبصرہ نگار اور مبصرین نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے اس تازہ ترین پاور شو کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ پھر کس بل بوتے پر شیخ رشید براہ راست اور عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بالواسطہ طور پر 2018ء کے انتخابات کے التوا کے امکانات دیکھ رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ماضی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں اس سے پہلے جو قومی انتخابات ملتوی کئے گئے، وہ کن حالات میں ملتوی کئے گئے اور اس کی کیا وجوہ تھیں۔ پاکستان میں قومی انتخابات سب سے پہلے 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لاء کے نتیجے میں ملتوی ہوئے۔ 1956ء کے آئین کے تحت ملک میں نومبر 1958ء میں انتخابات ہونا قرار پائے تھے، لیکن اس سے پہلے ہی اکتوبر 1958ء میں آئین کو منسوخ کر کے مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ایک رائے کے مطابق صدر سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی طرف سے آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کے نفاذ کا اصل مقصد ہی نومبر 1958ء میں عام انتخابات کے انعقاد کو روکنا تھا۔ کیونکہ خفیہ ذرائع کے مطابق انتخابات کی صورت میں پاکستان کے دونوں حصوں میں بائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں کے برسر اقتدار آنے کا قوی امکان تھا اور نہ صرف پاکستان کے برسر اقتدار طبقے بلکہ امریکہ جس نے چند سال پہلے پاکستان کو کمیونزم کے خلاف حلیف کے طور پر سیٹو اور معاہدہ بغداد میں شامل کیا تھا کے لیے بھی انتخابات کے یہ نتائج قابل قبول نہیں تھے۔ یاد رہے کہ 1954ء میں جب پاکستان نے سیٹو کی رکنیت قبول کی تو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کی امریکہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والے دفاعی معاہدوں میں شرکت اور فوجی اتحاد کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں تازہ تازہ تشکیل پانے والی نیشنل عوامی پارٹی جو دراصل سابق صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں مسلم لیگ مخالف قوم پرست پارٹیوں اور گروپوں پر مشتمل ایک متحدہ محاذ تھا، ابھی پاکستان کی مغرب نواز خارجہ پالیسی کے سخت خلاف تھی۔ امریکہ کے لیے انتخابات میں ان عناصر کی کامیابی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں اس کی کمیونزم کے خلاف حکمت عملی کو سخت دھچکا لگ سکتا تھا۔ پاکستان میں انتخابات کے التوا کا دوسرا بڑا واقعہ 1977ء میں رونما ہوا جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور نوے دن کے اندر نئے انتخابات کروانے کا پوری قوم سے وعدہ کیا لیکن جب اسے نظر آیا کہ انتخابات میں پیپلز پارٹی جیت جائے گی تو انتخابات کو مثبت نتائج کے حصول تک غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ 2018ء کے انتخابات کے بارے میں غالب رائے یہی ہے کہ اس میں پاکستان مسلم لیگ نون کا پلہ بھاری ہو گا اور نوازشریف ایک دفعہ پھر وزیراعظم بن جائیں گے۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ انتخابی نتیجہ مثبت نہیں ہو گا، اس بنا پر ان کی نظر میں انتخابات کو غیر معینہ عرصہ تک ملتوی کرنے کا پورا پورا جواز موجود ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ لیکن کیا اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے 1958ء اور 1977ء کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات کے تناظر میں اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔ تو پھر انتخابات ملتوی کر کے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا عملی اقدام کیا جائے گا؟ اس کے لیے ایک تجویز سابق صدر اور فوجی حکمران پرویز مشرف کی طرف سے پیش کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور فوج کو مل کر موجودہ حکومت کی جگہ ٹینکوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت تشکیل دینی چاہیے جو بقول ان کے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے احتساب کا عمل مکمل کرے، لیکن ایسا اقدام 1977ء میں آسان تھا، اب مشکل ہے کیونکہ گزشتہ تقریباً چالیس برسوں میں دریائے سندھ اور پنجاب کے دریائوں کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس قسم کے اقدام کی ناکامی اور پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں اس قسم کا اقدام سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا کیونکہ وفاق میں شامل چھوٹے صوبے اسے قبول نہیں کریں گے۔ تاہم اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک برقرار رہتا ہے اور پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹائون کی صاف اور شفاف تحقیقات کی روشنی میں حقیقی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتی تو جیسا کہ کہا جاتا ہے سیاست میں سب کچھ ممکن ہے، اس لیے موجودہ سسٹم میں ہی دیگر سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ کو لچک دکھانی چاہیے جس کا سب سے زیادہ سٹیک ہے اور پاناما لیکس پر ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے آگے بڑھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔