افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا ہے۔ تقریباً دو برس قبل اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد‘ افغان صدر کا یہ دوسرا دورہ بھار ت ہے تھا اگرچہ اس دورے کے نتیجے میں بھارت اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی؛ تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا ‘ اس میں نام لیے بغیر پاکستان کو ہدف تنقید بنایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح بھارت کے مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسز(IDSA) میں اپنے خطاب میں بھی افغان صدر نے بالواسطہ طور پر پاکستان کو افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ دو دن کے اس دورے کے اختتام پر بھارت نے افغانستان کو ایک ارب ڈالر کی مزید امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے تبادلے کے معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں۔
صدر اشرف غنی نے بھارت کا یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں افغانستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف تجارت اور اقتصادی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی تعاون فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا آغاز اگرچہ گزشتہ سال اپریل سے ہی شروع ہو گیا تھا‘ جب افغان صدر نے افغان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے
کے وعدے سے انحراف کا الزام لگایا تھا؛تاہم اس سال پہلے طورخم اور پھر چمن کے مقام پر دونوں ملکوں کی سرحد کی بندش سے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ طورخم‘ جہاں سے پاک افغان سرحد آر پار جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے‘ جون میں پاکستان اور افغانستان کی سرحدی افواج کے درمیان جھڑپوں کا مرکز تھا۔ ان جھڑپوں کی وجہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے اندر ایک گیٹ کی تعمیر پر اعتراض تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی نے اتنی شدید صورت اختیار کر لی کہ پاکستان کی باقاعدہ فوج نے سرحد پر اگلے مورچے سنبھال لیے اور اپنی مدد کے لیے ٹینک اور بھاری ہتھیار منگوا لیے۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک افغان فوجی جوان اور دو شہری ہلاک ہوگئے۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے طورخم پر پاک افغان سرحد 6روز تک بند رہی اور اس دوران روزانہ تقریباً 30ہزار افراد کو جن میں طالب علم‘ مزدور‘ تاجر‘ بیمار اور بچے اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں‘سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ خورد نوش اور روز مرہ اشیاء جن میں زیادہ تر پھل اور سبزیاں ہوتی ہیں‘ سے لدے سینکڑوں ٹرکوں کو سرحد کے دونوں طرف چھ دن تک رکنا پڑا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ سرحد کی اس بندش سے انہیں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ چمن کی سرحد پر ناخوشگوار واقعہ جس کی وجہ سے پاک۔ افغان سرحد پر ہر قسم کی آمدو رفت بند کر دی گئی‘14اگست کو رونما ہوا تھا جس میں افغانستان کے اندر پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کی گئی تھی اور پاکستانی چیک پوسٹ پر پتھر پھینکے گئے تھے۔ اس واقعہ کی وجہ سے چمن کی سرحد14روز تک بند رہی۔ اس سے بھی نہ صرف افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آنے جانے والوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا‘ بلکہ تجارتی سازو سامان سے لدے ٹرکوں اور کنٹینرز کو دو ہفتے تک سرحد کے دونوں طرف ٹھہرنا پڑا۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بار بار سرحد کی بندش سے انہیں بھاری مالی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ٹرکوں کے ذریعے اپنا مال جس میں زیادہ مقدار تازہ پھلوں کی ہوتی ہے ‘ بھارت کے لیے بروقت واہگہ سرحد پر نہیں پہنچا سکتے۔ اس صورت حال سے افغانستان کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تاجر بھی پریشان ہیں۔ اگست میں جب افغانستان کی طرف سے تحریری معافی نامہ کے بعد چمن سرحد کھولی گئی تو پاکستان کے تاجروں نے حکام سے یہ خصوصی درخواست کی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے سیاسی تعلقات خواہ کیسے بھی ہوں سرحد بند نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس سے تاجر برادری کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت جانے سے قبل صدر اشرف غنی نے پاکستان کے راستے ‘ بھارت اور افغانستان کے درمیان بلا روک ٹوک تجارتی راہداری کا مطالبہ کیا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں 2010ء کے معاہدے کے تحت افغانستان کے راستے وسط ایشیائی
ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کی پاکستان کو دی گئی رعایت واپس لینے کی دھمکی دی تھی‘ لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان اصل تنازعہ افغان طالبان اورحقانی نیٹ ورک سے متعلق ہے جن کے بارے میں افغان حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان انہیں اپنے ہاں پناہ دے کر ان کی اعانت کر رہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے باہمی کشیدہ اور خراب تعلقات کا کوئی منطقی یاعقلی جوازنہیں۔ دونوں ہمسایہ برادر اسلامی ممالک ہیں جن کے درمیان مذہب کے علاوہ یہ نہایت گہرے‘ قدیم اور قریبی تہذیبی‘ لسانی‘ ثقافتی اور نسلی تعلقات ہیں۔ چاروں طرف خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کے لیے پاکستان سب سے آسان اورکم ترین فاصلے پر مشتمل باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ کے لیے راستہ مہیا کرتا ہے۔
دونوں ملکوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم21بلین ڈالر ہے‘ جس کی بنا پر پاکستان اس وقت افغانستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ‘ افغانستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباً685ملین ڈالر ہے جو کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کے باوجود افغانستان میں بھارت کی موجودگی زیادہ نمایاں اور کابل انتظامیہ کے رویے میں نئی دہلی کے لیے زیادہ گرم جوشی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ افغانستان کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے عمل میں بھارت کی طرف سے افغانستان کو زیادہ امداد ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان کو چند ہائی پروفائل منصوبے بھی مکمل کر کے دیئے ہیں ۔ ان میں افغانستان کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ‘ ایک ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم اور افغانستان کے مغربی حصے میں ایران کے شہر مشہد کو ملانے والی شاہراہ کی تعمیر شامل ہے۔ بین الاقوامی برادری کے جو رکن ممالک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں‘ بھارت کا ان میں پانچواں نمبر ہے ۔بھارت اب تک افغانستان کو دو ارب ڈالر دے چکا ہے اور صدر اشرف غنی کے دورے کے موقع پر مزید ایک ارب دینے کا اعلان کیا ہے۔ سب سے اہم پیش رفت دفاع سے شعبے میں ہوئی ہے۔ بھارت اور افغانستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے روسی ساختہ تین ایم آئی25جنگی ہیلی کاپٹر دے چکا ہے اور چوتھے کو حوالے کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ہتھیار اور جنگی سازو سامان کے لیے افغان فوج کے سربراہ عنقریب بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کو 2010ء میں طے کئے گئے افغان‘ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA)کے تحت اپنے سامان کو بھارت کوبھیجنے کے لیے واہگہ تک اپنے ٹرکوں کو سامان لے جانے کی رعایت دے رکھی ہے۔ لیکن بھارت سے تجارت کا سامان پاکستان کے راستے لانے کی اجازت نہیں۔ افغانستان اور بھارت کی مسلسل درخواستوں کے باوجود پاکستان یہ پابندی ختم کرنے پر راضی نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے حال ہی میں بھارت ایران اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے موجودہ تعلقات کے تناظر میں اسلام آباد کو اس پر بجا طور پر تشویش ہو سکتی ہے۔ پھر پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ معاملات مکمل طور پر پاکستان کے ہاتھ سے نہیں نکلے۔ پاکستان اب بھی حالات پر قابو پا سکتا ہے۔ اس کے لیے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ضروری ہے اور یہ مقصد مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں افغانستان کا تعاون حاصل کیا جائے‘بارڈر مینجمنٹ میں افغان حکومت کی رائے کو شامل کیا جائے اور آئندہ کے لیے یقینی بنایا جائے کہ حالات کیسے بھی ہوں‘ سرحد بند نہیں کی جائے گی اور تجارت جاری رہے گی۔ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے ‘اس کے حصول کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جائیں اور اس کے لیے پاکستان‘ افغانستان‘ چین اور مریکہ پر مشتمل چہار فریقی تعاون گروپ کا اجلاس بلایا جائے۔ اس سال کے اختتام سے پہلے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے حوالے سے دو میگا ایونٹ ہونے جا رہے ہیں ۔ایک ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس جو نومبر میں اسلام آباد میں ہو گی اور دوسرا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جو دسمبر میں دہلی میں منعقد ہوگی۔ ان بین الاقوامی اجتماعات میں بھارت‘ افغانستان اور پاکستان کے نمائندو ںکے درمیان نہ صرف سفارتی رابطوں بلکہ مشاورت کا بھی موقع دستیاب ہو گا۔ پاکستان کو اس میں اپنا موقف پیش کر کے باقی دونوں ممالک کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔