"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان‘ کشمیر اور عالمی رائے عامہ

پاکستانی دفتر خارجہ کا ایک حالیہ بیان کہ 1972ء کا شملہ معاہدہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تبدیل نہیں کر سکتا‘ سوفیصد درست ہے ۔1948ء میں مسئلہ کشمیر پر بحث کے دوران میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان کو ایک فریق تسلیم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا‘ جسے بھارت نے بھی تسلیم کیا تھا۔ ان قرار دادوں کی روشنی میں پاکستان کو نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنے بلکہ دُنیا کے ہر فورم بشمول اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حقوق کی حمایت اور بھارت کی طرف سے ان کی جدوجہد کو بزور طاقت دبانے کے خلاف آواز بلند کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ موجودہ حکومت نے دُنیا کے مختلف ملکوں میں خصوصی نمائندے بھیج کر کشمیریوں کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جو اقدام کیا ہے،وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ بھارت اس پر اعتراض نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان کشمیر کے مسئلے میں ایک اہم فریق ہے۔ بھارت اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
لائوس میں ''آسیان‘‘ سربراہی کانفرنس کے دوران میں بھارتی وزیر اعظم نے نام لیے بغیر پاکستان پر اپنی سرحدوں سے باہر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام لگایا ہے۔وہ اس قسم کا الزام چین میں منعقد ہونے والی جی ٹونٹی کانفرنس میں بھی لگا چکے ہیں۔ لیکن تمام دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کی موجودہ جدوجہد ان کی اپنی جدوجہد ہے اور کسی بیرونی سہارے کے زور پر نہیں چل رہی‘ اس کی جڑیں کشمیر میں ہیں۔ اس کا تعلق کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے ہے‘ جسے عالمی برادری اقوام متحدہ کے ذریعے تسلیم کر چکی ہے ‘دنیا کا کوئی ملک بھارت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ پوری عالمی برادری بشمول بڑی طاقتیں مثلاً امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین اور چین اسے ایسا مسئلہ سمجھتے ہیں جس کا مستقل اور حتمی حل ابھی باقی ہے۔ بھارت بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ دنیا میں اس کے موقف کو پذیرائی حاصل نہیں۔ اس لیے وہ مختلف حیلے بہانوں سے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لائوس اور چین میں نریندر مودی کی جانب سے پاکستان پر بیرون ملک دہشت گردی پھیلانے کا الزام اسی کوشش کا حصہ ہے۔ چونکہ دہشت گردی اس وقت دنیا کا نمبر ون مسئلہ ہے اور ہر ملک کو اس پر سخت تشویش لاحق ہے، اس لیے بھارت کا خیال ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کر کے کشمیر کی موجودہ صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹا سکتا ہے اور اس طرح وہ کشمیر میں نہتے عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر بھی پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ لیکن کشمیریوں کے بہادر عوام نے اپنے خون سے جدوجہد آزادی کی تاریخ رقم کر کے بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اب مودی سرکاری کے لیے دنیا کو گمراہ کرنا ممکن نہیں۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود وادی کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف اور آزادی کے حق میں عوام کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ریاستی حکام نے آنسو گیس‘ لاٹھی چارج ‘ چھرے دار بندوقیں حتیٰ کہ فائرنگ کر کے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن احتجاجی مظاہرین نے ان تمام ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیا ‘یہاں تک کہ حکام کرفیو نافذ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ 
ان حالات میں کون بھارت کے اس جھوٹے پروپیگنڈے سے متاثر ہو گاکہ کشمیر میں پاکستان دہشت گرد بھیج کر گڑ بڑ کر رہا ہے۔ تاہم چونکہ بھارت بدستور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ عالمی برادری خصوصاً جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔22نمائندگان خصوصی کو دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجنے کا اقدام اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے ان ممالک کو کشمیر کی اصل صورتحال جاننے میں مدد ملے گی۔ لیکن بین الاقوامی برادری کو کشمیر کے بارے میں تشویش دراصل خطے کے امن اور استحکام کے حوالے سے ہے۔ دوسرے ممالک جن میں پاکستان کے دوست ملک بھی شامل ہیں، اس رائے کے حامل ہیں کہ اگر کشمیر میں لگی آگ کو ٹھنڈا نہ کیا گیا تو اس کے شعلے جنوبی ایشیا کے امن کو خاکستر کر دیں گے،کیونکہ ماضی میں پاکستان اوربھارت کے درمیان دو پوری اور ایک آدھی جنگ کشمیر کی وجہ سے ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ڈر ہے کہ کشمیر پر بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک دفعہ پھر دونوں ملکوں میں کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور چونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ اس بار تصادم دونوں ملکوں میں کہیںایٹمی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے ۔اگر ایسا ہوا تو یہ نہ صرف دونوں ممالک اور جنوبی ایشیا کے خطے بلکہ پوری دنیا میں تباہی کا پیش خیمہ ہو گا کیونکہ پاکستان اور بھارت کے ہمسایہ ایٹمی ہتھیاروں کے مالک یعنی چین اور روس اس جنگ سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ بین الاقوامی برادری کی رائے میں اس کے بعد جس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اوربھارت نے یہ دونوں طریقے آزما کر دیکھ لیے ہیں۔ ان کا سوائے جنگ کے کوئی اور نتیجہ نہیں نکلا اور اصل مسئلہ نہ صرف جوں کا توں رہابلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو گیا۔ اس لیے دنیا کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ بات چیت کی حمایت کرتی ہے۔ دُنیا یہ بھی چاہتی ہے کہ اس بات چیت میں پیشرفت کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ اقدامات سے احتراز کریں بلکہ آپس میں تعلقات اور میل جول میں اضافہ کریں۔ تاکہ ایسا ماحول پیدا ہو کہ باہمی اعتماد میں اضافہ ہو۔ 
اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ مسئلہ طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں ہو سکتا‘ اسے صرف بات چیت کے ذریعے ہی پُرامن طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔2004ء میں امن مذاکرات کے سلسلے کا آغاز اسی پالیسی کے تحت کیا گیا تھا۔ مذاکرات کے اس سلسلے کے چار رائونڈ ہوئے تھے اور ان کے نتیجے میں پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کے بعض شعبوں مثلاً دو طرفہ تجارت اور عوام کے میل جول میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔ لیکن کشمیر اور دیگر تنازعات مثلاً سیاچین اور سرکریک کے محاذ پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستانی نقطہ نظر سے اس کا سبب بھارت کی ہٹ دھرمی ہے۔ پاکستان نے اس سمت بہت لچک دکھائی‘ حتیٰ کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر ایک ایسے حل کا فارمولا پیش کیا جو بھارت اور پاکستان کے علاوہ کشمیری عوام کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتا تھا۔ لیکن بھارت اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ طاقت کے زور سے کشمیر میں اختلاف رائے کو کچلنے کی پالیسی جاری رکھی۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال بھارت کی اس غیر لچک دار پالیسی کا نتیجہ ہے۔ نئی صورت حال میں پاکستان نے بھی اپنا موقف سخت کر دیا ہے اور بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہے لیکن یہ بات چیت کشمیر پر ہو گی اور اس کا موضوع صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد ہو گا۔ دوسری طرف بھارت نے کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دے کر اس پر پاکستان کی طرف سے بات چیت کی تجویز کو رد کر دیا ہے اور اس کے مقابلے میں بھارت نے شرط عائد کی ہے کہ بات چیت ہو گی تو صرف دہشت گردی کے مسئلہ پر‘ یعنی پاکستان نے 2008ء کے ممبئی اور 2016ء میں پٹھانکوٹ حملوں میں مبینہ طور پر ملوث دہشت گردوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے اور بقول اس کے پاکستانی علاقوں سے مبینہ دہشت گردوں کو کشمیر یا بھارت میں داخل ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کے موقف میں بہت فرق ہے ‘لہٰذا ان حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن عالمی رائے عامہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان اوربھارت نے بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ 
صاف ظاہر ہے کہ دونوں ممالک عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا‘ اسے اپنے مفادات کے لیے دُنیا کی بات سننی اور بعض اوقات ماننا بھی پڑتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی صورت میں ایسا صرف اس شکل میں ممکن ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور غیر مشروط بات چیت پر آمادہ ہوں۔ لیکن کشمیر میں موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے‘ اس لیے اسے ڈی فیوز کرنے کی ذمہ داری بھی بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ بھارت کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا چھوڑ دے اور اسے ایک متنازع مسئلہ سمجھ کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرے۔ دنیا بھی کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ قرار دے چکی ہے اور اس بات کے حق میں ہے کہ پاکستان اور بھارت مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اس کا حل نکالیں۔ اس اپروچ کو اختیار کیے بغیر بھارت عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ وہ مختلف فورم پر پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ملک کے طور پر پیش کر کے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کر سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں