امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ثابت ہو گیا کہ امریکی ایک سیاہ فام کو بطور صدر منظورکر سکتے ہیں لیکن ایک عورت کو صدر کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی میں بہت سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں‘ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہیلری کلنٹن کی ناکامی میں اس کے عورت ہونے کو بڑا دخل ہے۔ 2008ء میں امریکہ کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جو چیلنجز درپیش تھے‘ انہوں نے امریکیوں کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ اُس وقت امریکہ زبردست مالی بحران کا شکار تھا اور اس کے اثرات دُنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے تھے۔ بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہو رہے تھے‘ کارخانے بند ہو رہے تھے اورملک میں بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بلند ہو چکی تھی۔ بیرونی محاذ پر امریکہ افغانستان اور عراق میں بُری طرح پھنسا ہوا تھا اور ان جنگوں سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ اگرچہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے مربوط نام کے تحت امریکہ نے 11ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد اپنے آپ کو محفوظ کر لیا تھا، لیکن یورپ اور دُنیا کے دیگر حصوں میں امریکہ کے اتحادی ممالک دہشت گردی کا نشانہ بن رہے تھے۔ اسی صورت حال نے امریکیوں خصوصاً متوسط طبقے کے لوگوں کو سخت مایوسی اور خوف سے دوچار کر دیا تھا۔ بارک اوباما کی صورت میں امریکیوں کو امید کی ایک کرن دکھائی دی اور انہوں نے ان کے اس وعدے کا یقین کر لیا کہ وہ حالات میں تبدیلی لائیں گے۔ عراق میں امریکہ کی فوجی مداخلت بہت غیر مقبول تھی۔ اوباما نے امریکیوں سے وعدہ کیا کہ وہ عراق سے ہی نہیں بلکہ افغانستان سے بھی امریکی افواج کو واپس بلا لیںگے۔ چنانچہ امریکیوں نے سیاہ فام ہونے کے باوجود اوباما کو ایک مدت کے لیے نہیں بلکہ دو مدتوں کے لیے صدر چُن لیا۔ جس طرح بارک اوباما کی کامیابی میں خوف کا عنصر کارفرما تھا‘ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں بھی امریکیوں کے خوف کو عمل دخل ہے۔ یہ خوف ہے امریکہ میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد، امریکہ میں دہشت گردی کے چند واقعات میں مسلمانوں کے ملوث پائے جانے اور دنیا کے باقی حصوں خصوصاً مشرق وسطیٰ میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کے تقویت پکڑنے سے۔ بارک اوباما کی دوسری مدت کے لیے کامیابی میں اگرچہ سیاہ فام باشندوں اور تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد کی حمایت نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا‘ تاہم فیصلہ کن کردار سفید فام آبادی کے اس حصّے نے ادا کیا جس نے ری پبلکن امیدوار کے مقابلے میں اوباما کو ووٹ دیے۔ سفید فام ووٹروں نے اس دفعہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کی بجائے‘ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیے۔ ان ووٹروں میں ان ووٹرزکی بھی بڑی تعداد شامل ہے جو اس سے قبل ڈیمو کریٹک پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ توقع کے برعکس ہیلری ری پبلکن پارٹی کے ووٹ توڑنے میں ناکام رہیں، بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ ٹوٹ کر ری پبلکن پارٹی کی طرف چلے گئے۔ چنانچہ ان ریاستوں میں جہاں اکثریت ڈیمو کریٹک امیدوار کو ووٹ ڈالتی تھی‘ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوئے۔
اب جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں،وہ 20جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیںگے۔ پاکستان میں یہ بحث جاری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت میں پاکستان۔ امریکہ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ امریکی سیاسی نظام میں صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہیں، خاص طور پر خارجہ پالیسی کا شعبہ مکمل طور پر امریکی صدر کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر تشویش کے اظہار کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا اعلان کیا۔ دوسرے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی طرف سے لڑی جانے والی جنگ پر انہوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ خدشہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے یا ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پاکستان پر مزید دبائو ڈالیںگے۔ بھارتی وزیر اعظم نے بھی ٹرمپ کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ بھارت تعلقات میں مزید اضافے کی توقع ظاہر کی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پہلے ہی بہت گہرے اور وسیع ہو چکے ہیں اور چین نے بھی غیر سرکاری طور پر اس پر بھارت کو اپنے موقف سے آگاہ کر دیا ہے۔ اگر ٹرمپ صدر بننے کے بعد بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کو مزید وسعت دیتے ہیں تو اس سے چین کی طرف سے ردعمل
آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیر سپلائرزگروپ میں بھارت کی شمولیت کی چین کی طرف سے مخالفت، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہرکو دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی کوششوں کی چین کی طرف سے مخالفت اور سرحدی ریاست ارونا چل پردیش کا پہلے بھارت میں امریکہ کے سفیر اور حال ہی میں دلائی لاما کے دورہ کی وجہ سے پہلے ہی تنائو پیدا ہو چکا ہے۔ اگر ٹرمپ کی طرف سے بھارت کے حق میں غیر معمولی جھکائو کا مظاہرہ کیا گیا تو اس سے ایک طرف امریکہ اور چین کے درمیان نئی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور دوسری طرف بھارت اور چین کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں جنوبی ایشیا کا خِطّہ ایک غیر یقینی اور عدم استحکام کی فضا کی لپیٹ میں آ جائے گا اور پاکستان مشکل صورتحال سے دو چار ہو سکتا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستانی چیک پوسٹوں اور شہری علاقوں پر لگاتار فائرنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کی خراب صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر اپنا دبائو ڈالنا چاہتا ہے۔ اگرٹرمپ انتظامیہ بھارت کے ساتھ امریکہ کی یکجہتی کو اور بھی نمایاں کرتی ہے تو صرف پاکستان کے بارے میں ہی نہیں‘ بلکہ چین اور اپنے دیگر چھوٹے ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھی بھارت کا رویہ جارحانہ شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے اور چھوٹے سائز کے ایٹم بم بنا رہا ہے جو دشمن کی
میدانی فوجوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی نظر میں اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروںکی دوڑ شروع ہو جائے گی اور اس کی وجہ سے جنوبی ایشیا غیر مستحکم ہو جائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں اور کشمیر میں بدستور کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ایک غیر مستحکم جنوبی ایشیا عالمی امن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے اپنے پیشرو صدر اوباما کے بہت سے اقدامات اور پالیسیوں کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن ان کا تعلق زیادہ تر امریکہ کی داخلی صورت حال سے ہے۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کے شعبے کا تعلق ہے اگرچہ اس پر ٹرمپ کے خیالات اور مزاج کی یقیناً چھاپ ہو گی‘ تاہم اب تک کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تسلسل قائم رہتا ہے اور اس میں کوئی بڑی یا ڈرامائی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اس لیے پاکستان ہی امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل کا یہ بیان کافی حد تک درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے سے پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دیرینہ ہونے کے علاوہ کثیر الجہتی بھی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے لیے امریکہ کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان تعلقات کے ذریعے امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنا خطے میں امریکی مفادات اور حکمت عملی کے لیے بہت اہم ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور دیتا رہے گا۔ پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں میں پاک امریکہ تعاون کا یہی مقصد ہے اور یہ تعاون جاری رہنے کی توقع ہے۔