وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ اُمور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت میں منعقد ہونے والی چھٹی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرے گا اور اس مقصد کے لیے وہ خود پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ ہارٹ آف ایشیا کی یہ وزارتی کانفرنس بھارت کے شہر امرتسر میں 3 دسمبر سے شروع ہو رہی ہے۔ بھارت کے منفی رویّے کے باوجُود‘ پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ ہر لحاظ سے مستحسن ہے۔ ایک یہ کہ اس فیصلے سے اپنے ہمسایہ ممالک اور خطے کو درپیش مسائل پر پاکستان کی مثبت سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ بھارت کے رویے کے برعکس جس کے تحت بھارتی رہنمائوں نے پاکستان میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا‘ پاکستان نے امرتسر میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کر کے اپنے ہمسایہ ممالک بلکہ بین الاقوامی برادری کو پیغام دیا ہے کہ وہ تمام ملکوں کے ساتھ نہ صرف پُرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں‘ بلکہ خطے کو درپیش سلامتی‘ معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
کیونکہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے اور اس کے ساتھ دیگر
ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو بہتر اور قریبی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کو استنبول پراسیس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ترکی کے شہر استنبول میں
نومبر2011ء میں رکھی گئی تھی۔ اس میں 14ممالک شریک ہیں۔ ان میں پاکستان‘ بھارت‘ چین‘ رُوس‘ سعودی عرب‘ متحدہ امارات اور افغانستان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بیس ایسے ممالک ہیں جن کا کام اس کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے امداد فراہم کرنا ہے۔ ان میں امریکہ ‘ جاپان‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہے۔ بنیادی طور پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مقصد ایسے مسائل کو زیر بحث لانا ہے جن کا تعلق علاقے کی سلامتی‘ سیاست اور معیشت سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس کا اب تک فوکس افغانستان کا مسئلہ رہا ہے جس کے حل کے لیے کانفرنس کی طرف سے اہم سفارشات کی جا چکی ہیں۔ پاکستان‘ چین‘ افغانستان اور امریکہ پر مشتمل چہار فریقی رابطہ گروپ کا قیام بھی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اِس گروپ کی مدد سے جولائی2015ء میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی دفعہ براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔ اگرچہ مذاکرات کا یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا اور پہلی ملاقات کے بعد مزید ملاقاتوں کا جو شیڈول تیار کیا گیا تھا‘ اُس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا؛ تاہم اس گروپ کے رُکن ممالک افغانستان میں امن اور مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لیے گروپ کے باقاعدہ اجلاس بھی ہو رہے ہیں۔ دُنیا کے دو اہم خطوں یعنی وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان مختلف شعبوں خصوصاً سکیورٹی اور معیشت میں تعاون کی ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو دہشت گردی جیسے سنگین خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ خطے کے عوام کی زندگیوں میں بہتری اور خوش حالی لائی جا سکتی ہے۔ سکیورٹی کے علاوہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اجلاس میں رُکن ممالک کے درمیان مواصلاتی رابطوں (Connectivity) اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی کوششوں کی بھی حمایت کی گئی ہے اور اس سلسلے میں رکن ممالک پر ہر قسم کے وسائل وقف کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ قازقستان کے دارالحکومت الماتی میں ہارٹ آف ایشیا کی کانفرنس میں چین کی طرف سے قدیم شاہراہ ریشم کو پھر سے بحال کرنے ‘ تاجکستان سے افغانستان کے راستے پاکستان کو 1000میگاواٹ بجلی فراہم کے منصوبے (CASA-1000) اور ترکمانستان ‘ افغانستان ‘پاکستان اور انڈیا گیس پاگپ لائن (TAPI) کے منصوبوں کی بھی جلداز جلد تکمیل پر زور دیا گیا تھا تاکہ اِن دونوں خطوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے۔ ہارٹ آف ایشیا کی پانچویں کانفرنس گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کی مشترکہ صدارت وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں افغانستان سرِ فہرست تھا اور اس کے اختتام پر ''اسلام آباد ڈیکلیریشن‘‘ کے نام سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کی پر زور حمایت کی گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری پر افغانستان کی موجودہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے مالی امداد جاری رکھنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ریجنل ٹیکنیکل گروپس(RTCO) کے ذریعے علاقائی تعاون کے عمل کو تیز کرنے پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مشترکہ اعلامیہ میں رُکن ممالک کے اس عہد کی تجدید کی گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے خطے کو درپیش سکیورٹی چیلنجز مثلاً دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور تجارت، معاشی تعاون اور عوامی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون کی رفتار کو تیز کریں۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغانستان کی جیو سٹریٹیجک پوزیشن کے پیش نظر اس میں قیام امن اور اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔
پاکستان‘ ہارف آف ایشیا کانفرنس کے اب تک منعقد ہونے والے تمام اجلاسوں میں نہ صرف شرکت کرتا رہا ہے بلکہ اس نے کانفرنس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت اس لیے بھی ضروری اور مُفید ہے کیونکہ اس کا فوکس افغانستان ہے۔ بھارت میں ہونے والے اس اہم اجلاس میں توقع ہے کہ افغانستان میں جنگ بند کرنے اور قیام امن کے لیے بعض اہم تجاویز پیش ہوں گی کیونکہ افغانستان میں جنگ اور بدامنی کا جاری رہنا صرف ہمسایہ ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کے ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اگر افغانستان میں جنگ جاری رہتی ہے تو عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے راستے میں نئی رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان میں داعش کی عددی اور عسکری طاقت میں ممکنہ اضافہ بھی شامل ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں جنگ اور بدامنی سے فائدہ اُٹھا کر داعش اپنی طاقت اور اثر و نفوذ میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال اس لیے بھی زیادہ باعثِ تشویش ہے کیونکہ حال ہی میں بلوچستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں‘ اُن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ سکیورٹی ذرائع کے مطابق داعش پاکستان کے مختلف حصوں‘ خصوصاً شہری علاقوں میں اپنے اثرو نفوذ کو بڑھا رہی ہے۔
کثیر الملکی کانفرنسیں‘ جن میں بھارت میں ہونے والی کانفرنس کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، اس لیے بھی مفید اور بار آور ثابت ہوتی ہیں کہ ان میں شرکت کرنے والے ممالک کو رسمی اجلاس سے باہر ملاقات کر کے اُن مسائل پر بھی بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے ‘ جو کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتے۔ لیکن شریک ممالک کے باہمی تعلقات کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل کانفرنسوں کے موقع پر اِن سائڈ لائن ملاقاتوں سے بعض اوقات بڑے بڑے بریک تھرو وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ان کی سب سے نمایاں اور ہمارے لیے ایک متعلقہ مثال''سارک‘‘ کی بعض سربراہی کانفرنسیں ہیں‘ جن کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈیڈ لاک کو ختم کیا۔ 1990ء کی دہائی میں پاک بھارت تعلقات کشیدہ تھے اور باہمی مذاکرات کا سلسلہ تعطل کا شکار تھا، لیکن مالدیپ میں ہونے والی ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اندر کُمار گجرال کے درمیان ملاقات نے دو طرفہ مذاکرات کی راہ ہموار کی جو بالآخر 1999ء میں وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی کے دورہ لاہور پر منتج ہوئی۔ امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت بھی دونوں ملکوں میں موجودہ کشیدگی میں کمی کا موجب ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگرچہ سرتاج عزیز اور بھارتی حکام کے درمیان کسی رسم ملاقات کا پروگرام نہیں‘ لیکن موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سرتاج عزیز‘ بھارتی وزیر خارجہ اور اگر علالت کے باعث وہ کانفرنس میں شرکت نہ کر رہی ہوں‘ تو اُن کے نمائندے سے غیر رسمی ملاقات کر سکتے ہیں۔ ایسی ملاقات کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت بھی ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلہ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔