کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے آرپار پاکستان اور بھارت کے فوجی دستوں میں فائرنگ کے تبادلہ نے شدت اختیار کر لی ہے۔ فائرنگ کا یہ تازہ سلسلہ اتنا ہی پُرانا ہے، جتنا نریندر مودی کی حکومت۔ لیکن کافی عرصہ تک اسی فائرنگ میں چھوٹے ہتھیار استعمال ہوتے تھے اور جانی نقصان نہ صرف کم بلکہ دونوں طرف شہریوں تک محدود تھا۔ اب اسی غیر اعلانیہ سرحدی جنگ میں بڑے ہتھیار یعنی مارٹر اور توپیں بھی استعمال ہونے لگی ہیں۔ اس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں طرف دور دور تک ملک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور جانی نقصان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ جانی نقصان اب شہریوں تک محدود نہیں، بلکہ دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے جوان بھی اس کی زد میں آرہے ہیں۔ تازہ ترین مثال نکٹال سیکٹر آزاد کشمیر میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے پار پاکستانی چوکیوں پر اِس کا بزدلانہ حملہ ہے جس کے نتیجے میں سات پاکستانی فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی افواج نے بھی بھارت کی اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے، لیکن اپنی نوعیت کا یہ ایک خطرناک واقعہ ہے، جس میں پاکستان خاموش نہیں رہ سکتا، وزیرِاعظم اور وزیرِ دفاع نے اس حملہ کی پُر زور الفاظ میں مذمت کی ہے اور بھارت کو اس سرحدی جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج سے آگاہ کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ نے پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر کو طلب کر کے اجتماعی مراسلہ حوالے کیا ہے۔ اور وارننگ دی ہے کہ بھارت اِس مہم جوئی سے باز رہے ورنہ اُسے خطرناک نتائج بھگتا پڑیں گے۔ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی جہلم میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرتے ہوئے، بھارت کو خبردار کیا ہے اور پاکستانی فوجی دستوں کی اس جارحیت کا جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے فوجی دستوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ میں تیزی آئے گی۔ چونکہ دونوں طرف سے بھاری ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں، جانی اور مالی نقصان میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ بلکہ اس جنگ کا دائرہ بھی وسیع ہو سکتا ہے جو اس خطے کے امن اور استحکام کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے موجودہ صورتحال پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکیں اور باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا کے متعدد دیگر ممالک نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ملکوں کو کشیدگی کم کرنے اور باہمی اختلافات کو دور کرنے کیلئے بات چیت کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔
پاکستان اور بھارت نے 2004ء میں دو طرفہ بنیادوں پر بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان ایک عرصہ سے جاری تنازعات، جن میں جموں و کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے کا حل تلاش کر کے باہمی تعلقات کو نارمل کرنا تھا۔ تا کہ خطے میں امن ہو اور پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنے اپنے وسائل اور توجہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کی طرف مبذول کر سکیں۔ اگرچہ بات چیت کا یہ سلسلہ 2008ء کے ممبئی میں دہشت گردی کے واقعہ کی وجہ سے دو ڈھائی سال تک رُکا
رہا اور اب بھی جنوری 2013ء سے معطل ہے، تاہم بات چیت کے اسی سلسلے کے چار راؤنڈ کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کافی بہتری آ گئی تھی۔ دو طرفہ تجارت میں کئی گنا اضافے کے علاوہ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کیلئے نئے زمینی راستے بھی کھُل گئے تھے۔ خود کشمیر میں مظفر آباد سری نگر بس سروس کا قیام اور راولا کوٹ، پونچھ کے درمیان ٹرک سروس اور تجارت کا آغاز اس عمل کے مثبت ثمرات ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ایک طرف پاکستان اور بھارت کے عوام اور دوسری طرف کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان میل جول میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اور عوامی رابطوں میں اِسی اضافہ کی وجہ سے باہمی اعتماد بھی بڑھ رہا تھا، جو کہ دیرینہ مسائل کے حل کیلئے انتہائی ضروری شرط ہے۔ بار بار تعطل کے باوجود پاک بھارت امن مذاکرات کے سلسلے نے دونوں ملکوں کے درمیان مواصلاتی رابطوں اور تجارت کی شکل میں جو پیش رفت کی ہے، وہ اتنی اہم ہے کہ موجودہ کشیدگی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلہ کے باوجود یہ اقدامات اپنی جگہ قائم ہیں۔ مظفر آباد سری نگر بس سروس بھی چل رہی ہے اور لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بھی جاری ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان، بھارت اور کشمیر کے دونوں
حصوں میں رہنے والے عوام امن، تعاون اور باہمی تعلقات میں اضافے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن بھارت سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت لائن آف کنٹرول پر پاکستانی مورچوں اور علاقوں کو بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے جو نشانہ بنا رہا ہے، اُس سے دونوں ملکوں کے عوام کی اس خواہش کو شدید دھچکا لگنے کا امکان ہے اس لیے کہ باہمی میل جول میں اضافے، مواصلاتی رابطوں کے قیام اور تجارت میں کئی گنا اضافے کی صورت میں امن مذاکرات کے جس سلسلے کی وجہ سے یہ اہم پیش رفت ہوئی تھی، اُس کی بنیاد نومبر 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کو بند کرنے اور پوری سرحد کے ساتھ ساتھ پُر امن ماحول پیدا کرنے کیلئے معاہدہ تھا۔ جس کی اب بھارت کی جانب سے کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم اُس بنیاد کو تباہ کر رہے ہیں جس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ 12 سال کے دوران طے پانے والے اعتماد سازی کے اقدامات (CBM) کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تھا۔ اگر سرحدوں پر کشیدگی جاری رہی اور لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے بھاری گولہ باری اور مسلح چھپ چھپا کے حملے جاری رہے تو سی بی ایم کا یہ ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ سکتا ہے۔ یعنی دونوں ملکوں نے بڑی مشکل سے دو طرفہ تجارت میں جو اضافہ کیا تھا اور نیگیٹو لسٹ میں شامل اشیاء کو بتدریج کم کر کے بھارت کے لیے ایم ایف این سٹیٹس (M.F.N STATUS) تک پہنچ گئے تھے، اُسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ سندھ میں منا باؤ ریل لنک کو دوبارہ منقطع کرنا مشکل ہو گا۔ تاہم کشمیر میں ٹرانس ایل او سی (Trans LOC) تجارت میں تعطل آ سکتا ہے۔ اسی طرح مظفر آباد، سری نگر بس سروس کا جاری رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کے دشمن حلقے تو اس پر بہت خوش ہوں گے اور اُن کی کوشش بھی یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بڑی محنت سے قائم کیے گئے روابط منقطع کر دئیے جائیں اور اس کے لیے وہ کئی بار جلسے جلوسوں میں مطالبہ بھی کر چکے ہیں لیکن اس سے پاکستانی اوربھارتی عوام کو بہت نقصان پہنچے گا۔ جو آپس میں دوستی اور بھائی چارہ پر مبنی تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ جو خطے میں جنگ کی بجائے امن چاہتے ہیں۔ مگر اِن دونوں ملکوں کی خواہش کے برعکس حالات مزید کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی یہ سمت ہر ایک کیلئے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔ اور خاص طور پر دونوں ملکوں کی حکومتوں پر اس ضمن میں خصوصی ذمہ داری عاید ہوتی ہے، کیونکہ عوام نے انہیں خطے کے حالات بگاڑنے کیلئے منتخب نہیں کیا۔ بلکہ خطے میں امن اور استحکام کی فضا پیدا کرنے کیلئے عوام نے ووٹ دئیے ہیں۔ تا کہ سرحد سے اِس اور اُس پار سربراہانِ حکومت اپنے اپنے عوام کو درپیش مسائل مثلاً غربت، جہالت، پس ماندگی اور بے روزگاری سے نجات دلا سکیں۔
موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست امن مذاکرات کا سلسلہ غیر مشروط طور پر بحال ہو اور پہلے قدم کے طور پر وہ لائن آف کنٹرول پر 2003ء کے معاہدے کا مکمل احترام کرتے ہوئے، فائرنگ کا سلسلہ بند کریں۔ تاکہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ بلا خوف خطر اپنے گھروں میں رہ سکیں اور روزمرہ کے کام کر سکیں۔ اسی طرح لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑے تصادم کا جو خطرہ پیدا ہو گیا ہے، اُس کا بھی سدباب ہو سکے گا۔ صورتحال کی سنگینی کے پیشِ نظر وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب کو فوری طور پر رابطہ قائم کر کے حالات کو خطرناک حد تک خراب ہونے سے بچانا چائیے۔ عوام کی طرف سے بھاری مینڈیٹ کے پیشِ نظر یہ اُن کا اہم فریضہ ہے۔