کیا پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ ایسے حالات میں جبکہ لائن آف کنڑول پر جھڑپیں شدید ہو رہی ہیں، دونوں طرف سے بھاری ہتھیار استعمال ہورہے ہیں اور اس کے نتیجے میں دونوں طرف جان اور مالی نقصان میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی امید رکھنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ گزشتہ تقریبا پانچ ماہ کے دوران میں پاک بھارت کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بات چیت یا تعلقات میں بہتری کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ لیکن حال ہی میں دونوں طرف سے چند ایسے اقدامات کئے گئے ہیں یا اشارے ملے ہیں کہ ہو سکتا ہے آئندہ چند ماہ کے دوران باہمی مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے۔ اس سلسلے میں امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کی شرکت خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دسمبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس کا بھارت کی طرف سے بائیکاٹ کرنے کے بعد یہ سمجھا جا رہاتھا کہ پاکستان بھی بھارت میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ گزشتہ دوماہ میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستان کا جو مالی اور جانی نقصان ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر پاکستان کی طرف سے بھارت میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ پاکستان میں ایسے عناصر بھی ہیں جو پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے ہر موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حکومت پر ان حلقوں کی طرف سے سخت دباؤ تھا کہ وہ اس کانفرنس میں جناب سرتاج عزیز کی شرکت کا پروگرام منسوخ کر دیں۔ لیکن حکومت نے اپنے فیصلے پر کار بند رہ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کا نمایاں مظاہرہ ہے۔ اگر بھارت بھی اسی طرح خیر سگالی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر باہمی تنازعات حل کرنے کی دعوت دے تو دونوں ملکوں میں سرد لہر ختم ہوسکتی اور کشیدگی میںکمی آسکتی ہے۔ چنانچہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت کے ایک ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت مذاکرات کی دعوت دے گا تو پاکستان اسے قبول کرے گا۔ انہوں نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر سرتاج عزیز کی بھارتی حکام کے ساتھ علیحدہ ملاقات اور اس کے نتیجے میں دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کا بھی امکان ظاہر کیا۔ اگرچہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ایک ملٹی لیٹرل (multilateral) اجتماع ہے اور اس کا فوکس بھی افغانستان میں امن اور تعمیر وترقی کے عمل کو فروغ دینا ہے؛ تاہم چونکہ اس کا انعقاد بھارت میں ہو رہا ہے اور اس میں ایسے ملک بھی شرکت کر رہے ہیں جو افغانستان میں امن ومصالحت کے عمل کی کامیابی کے لیے پاک بھارت مفاہمت کو ضروری سمجھتے ہیں اس لیے ان کی طرف سے پاکستان اور بھارت زور دیا جائے گاکہ وہ موجودہ کشیدگی کو کم کرکے باہمی تنارعات، جن میں کشمیر بھی شامل ہے، کو حل کرنے کے لیے مذاکراتی عمل بحال کریں۔ پاکستان اور بھارت میں اس و قت منتخب اور ذمہ دار حکومتیں برسراقتدار ہیں، دونوں حکومتیں متفق ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اور نہ کشیدگی میں اضافہ دونوں ملکوں کے مفاد میںہے، اس لیے دونوں طرف سے موجود کشیدہ صورت حال کو ڈی فیوز کرکے مذاکرات کا راستہ اپنانے پر آمادگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ مثلًا پاکستان کے ہائی کمشنر کے اس بیان کے جواب میںکہ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی وفد کے سربراہ سرتاج عزیز اور بھارتی حکام کی سائیڈ لائن ملاقات ہوسکتی ہے، بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اعلی افسر نے اگرچہ یہ کہا کہ بھارتی حکومت کو پاکستان کی طرف سے ابھی تک ایس کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، لیکن انہوں نے اس ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔
پاک بھارت تعلقات کو منجمد کرنے والی برف آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے جس میں بہت سے عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں؛ تاہم پاکستان میں حال ہی میں فوجی قیادت میں تبدیلی کو ایک حوصلہ افزا اور مثبت شگون کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی فوج کے نئے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حلف اٹھانے کے بعد پہلا بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر صورت حال جلد ختم ہوجائے گی، خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں پاکستانی چیف آف دی آرمی سٹاف کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے فائرنگ کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کے علاوہ پاکستان اس جنگ کی شدت اور دائرے کو مزید وسیع ہونے سے روکنے کے لیے دیگر آپشنز استعمال کرنے کا سوچ رہا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی اور دونوں ملکوں کے درمیان روابط کی مکمل غیر موجودگی کے حوالے سے بھارت میں پاکستان ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے۔ بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ یہ تاخیر مہینوں بلکہ برسوں پر محیط ہوسکتی ہے، لیکن آخر کار مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا کیونکہ دونوں نے جنگیں لڑکر دیکھ لی ہیں اور یہ حقیقت ان کے سامنے ہے کہ ان جنگوںکا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس لیے جتنی جلد بات چیت کی طرف رجوع کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح کا مؤقف مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کے ایک اہم حصے کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ریاست کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میںایک لمحہ ایسا آتا ہے جہاں دونوں کے لیے بات چیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ دونوں کا فرض ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔ کانگرس کے سینئر رہنما ڈگوی جایا نے بھی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ایک ہمسایہ ملک (پاکستان) کے ساتھ مذاکرات کے بغیر رہنا بھارت کے لیے ممکن نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، وزیر اعظم نریندرمودی کو پہلے ہی صاف الفاظ میں بتا چکی ہیںکہ ریاست میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ بزور طاقت نمٹنے کی بجائے بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت کاراستہ اپنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے امن مذاکرات کا حوالہ دیا اور مطالبہ کیا کہ اسے بحال کیا جائے اور اس کے تحت دیگر تنازعات سمیت کشمیر کو بھی زیر بحث لاکر ایسا حل تلاش کیا جائے جونہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ کشمیری عوام کے لیے بھی قابل قبول ہو۔
کشمیر میں بھی اس موقف پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2004ء میںدونوں ملکوں کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ اور امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، کشمیر عوام نے اس کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اس عمل کے نتیجے میںکشمیر میں اعتماد سازی کے جو اقدامات یعنی مظفر آباد سری نگر بس سروس اور پونچھ راولا کوٹ تجارت کے گئے، وہ کشیدہ صورت حال کے باوجود جا رہی ہیں کیونکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف آباد کشمیریوں کو ان سے بہت سہولت ملی۔ لیکن 2008ء میں ممبئی اور اس کے بعد دہشت گردی کے دوسرے حملوں کی وجہ سے ان مذکرات کے باعث وجہ سے پاک بھارت تعلقات میںمزید بہتری اور تنازعات کے حل کی طرف پیش قدمی رک گئی۔ لائن آف کنٹرول پر 2003ء کی سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزیاں بھی انہی حالات و واقعات کا نتیجہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان، بھارت اور کشمیر کے سنجیدہ اور سمجھدار حلقوں کی طرف سے پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دیاجارہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کو موجودہ کشیدہ اور خطرناک صورت حال سے باہر نکالنے کے لیے بات چیت کے سلسلے کو ازسرنو شروع کریں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں بھی اعلانیہ طورپر دنیا کے سامنے بات چیت کی اہمیت کا اقرار کرتی ہیں، لیکن بات چیت کا یہ سلسلہ اس لیے شروع نہیں ہوسکا کہ دونوں طرف سے پیشگی شرائط عائد کی جارہی ہیں۔ بھارت کی طرف سے اصرار کیا جارہا ہے کہ پاکستان پہلے ممبئی حملوں میں ملوث مبینہ پاکستانیوں کو سزا دے اور پٹھان کوٹ حملے کی تفتیش میں تعاون کرے۔ پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، مذاکرات بے سود ثابت ہوں گے۔ پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی ان کاانعقاد ہوا، بغیر کسی پیشگی شرط کے ہوا، اس لیے اب بھی دونوں ملکوں کو معلوم ہے کہ آخر کار ایسا ہی ہوگا۔ لیکن پہل کون کرے گا؟ پاکستان کا موقف ہے کہ پہل بھارت کو کرنا چاہیے کیونکہ جولائی 2004ء میں بھارت نے یک طرفہ طور پر مذاکرات کے سلسلے کو معطل کیا تھا۔ بھارت کا اصرار ہے کہ دسمبر 2015 ء میں وزیر اعظم نریندرمودی نے لاہور میں اپنے پاکسانی ہم منصب نواز شریف کے گھر جاکر غیر معمولی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن جواب پٹھان کوٹ حملے کی صورت میں ملا، اس لیے پہل پاکستان کی طرف سے ہونی چاہیے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ ڈائیلاگ کا آغاز دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔