اسرائیل اور امریکہ میں قدامت پسند دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کے حامل صہیونیت کے حامی عناصر آج کل سخت حواس باختگی اور پاگل پن کا شکار ہیں۔ وجہ اس کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی وہ قرارداد ہے جس میں مقبوضہ عرب علاقوں خصوصاً دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی طرف سے نئی یہودی بستیوں کے قیام کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کو فوراً روک دے کیونکہ اُس کا یہ اقدام نہ صرف فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کے خلاف ہے بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے پورے علاقے کے امن اور استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی بوکھلاہٹ کا اصل سبب یہ ہے کہ جب یہ قرارداد سلامتی کونسل میں منظوری کے لیے پیش کی گئی تو امریکہ نے اسے ویٹو کرنے کی بجائے ووٹنگ میں غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی اور اس طرح یہ قرارداد جس کے حق میں سلامتی کونسل کے کل پندرہ ارکان میں سے بارہ نے ووٹ دیا، منظور ہو گئی۔ اسرائیل کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امریکہ جس نے 1947ء میں اسی عالمی ادارے سے فلسطین کو تقسیم کرنے اور اسرائیل کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کروائی تھی اور آج تک اسرائیل کی مکمل پُشت پناہی کرتا چلا آ رہا ہے‘ کبھی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد پر خاموش بیٹھا رہے گا اور اُس کی مذمت میں قرارداد منظور ہونے دے گا۔ اس قرارداد پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک طرف صدر اوباما کی حکومت کو بُرا بھلا کہا اور دوسری جانب اُن تمام ممالک جنہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے کے ساتھ سفارتی میل جول محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے اقوام متحدہ بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کے موقف کے برعکس اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت نے تل ابیب کے حکمرانوں کا اور بھی دماغ خراب کر دیا ہے اور انہوں نے صدر اوباما کی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو بھی دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ بلکہ مقبوضہ عرب علاقوں خصوصاً بیت المقدس کے مشرقی حصے، جہاں فلسطینیوں کی اکثریت آباد ہے میں نئی یہودی بستیاں قائم کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ اسرائیل کو اس بات پر بھی بڑی تکلیف ہوئی کہ صدر اوباما کی حکومت نے سلامتی کونسل میں ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر نہ صرف اسرائیل کی مذمتی قرارداد کو منظور کروانے میں مدد فراہم کی‘ بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے اوباما ایڈمنسٹریشن کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کو کھری کھری بھی سناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی یہودی بستیاں بسانے کا کوئی قانونی حق نہیں اور اسرائیل کے اس اقدام سے فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی امن منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جان کیری نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو یہ منصوبہ تسلیم کرنا پڑے گا، وہ تمام فسلطینی علاقوں پر اپنا حق جتلا کر ایک یہودی ریاست قائم نہیں کر سکتا۔ اُسے فلسطینیوں کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک علیحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے اب تک امریکہ نے آنکھیں بند کر کے اسرائیل کی مالی اور عسکری امداد کی ہے۔ دنیا میں امریکہ کی مالی امداد حاصل کرنے والوں میں اسرائیل کا پہلا نمبر ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ امریکہ کی مالی امداد ہی ہے جس نے اسرائیل کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی میں بھی امریکہ اسرائیل کے معاملے میں بہت فراخ دل ثابت ہوا ہے، بلکہ نازک مواقع پر امریکہ نے اسرائیل کو بچانے میں براہ راست فوجی مداخلت سے بھی احتزاز نہیں کیا۔ اس کی مثال 1973-74ء میں عرب اسرائیل کی چوتھی جنگ کی مثال
دی جا سکتی ہے، جب مصر اور شام کی متحدہ فوجوں کے ہاتھوں اسرائیل تقریباً شکست کھا چکا تھا‘ امریکہ نے ٹینک اور جدید ترین اسلحہ کی بھاری کھیپ بھیج کر جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جس قرارداد کی بنیاد پر 1948ء میں اسرائیل کا قیام ممکن ہوا تھا‘ وہ بھی امریکہ کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھی‘ لیکن 1950ء کی دہائی کے بعد جب ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے والے ملکوں کی بھاری تعداد نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کر لی تو اس پلیٹ فارم سے فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں پیش کی جانے لگیں۔ جنرل اسمبلی میں یہ قراردادیں تو منظور ہو جاتی تھیں‘ تاہم سلامتی کونسل میں امریکہ اپنے ویٹو کا حق استعمال کر کے ان قراردادوں کو بلاک کر دیتا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے ایک اقدام کی مذمت پر مبنی قرارداد پیش ہوئی اور امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اسے ویٹو نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یورپی ممالک مثلاً برطانیہ اور فرانس نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ آخر امریکہ اور دیگر ممالک جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی نے اپنا رویہ کیوں تبدیل کیا؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ قرارداد اُن علاقوں میں اسرائیل کی طرف سے نئی یہودی بستیاں بسانے کے مسئلے پر پیش کی گئی تھی‘ جو مشرق وسطیٰ کے امن منصوبہ کے تحت مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ قرار پائے تھے۔ ان علاقوں کی آبادی فلسطینی اکثریت پر مشتمل ہے۔ اسرائیل ان علاقوں میں فلسطینیوں سے زمین ہتھیا کر زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ ان علاقوں میں فلسطینی اکثریت ختم کی جا سکے۔ اسرائیل کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور اسرائیل کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کو دفن کرنے کے مترادف، جس کے تحت فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس وقت یہ علاقے فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہیں لیکن اسرائیل نے ان پر بدستور قبضہ جما رکھا ہے۔ اسرائیل کا حتمی مقصد فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کو روکنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اسرائیل میں آنے والے یہودیوں کے لیے نئی بستیوں کے قیام کو بطور آلہ کار استعمال کر رہا ہے۔ اس وقت صرف دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر 4,30,000 یہودی آبادکار رہائش پذیر ہیں اور دو لاکھ کے قریب بیت المقدس کے مشرقی حصے میں رہ رہے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں بیت القمدس پر اپنا حق جتلاتے ہیں۔ فلسطینی اسے مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں اس پر قبضہ کر کے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے چکا ہے۔
امریکی رویے میں تبدیلی کی دوسری وجہ دنیا اور خود مشرق وسطیٰ میں اُبھرتے ہوئے جیوپولیٹیکل حقائق کی روشنی میں بدلتا ہوا توازن طاقت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی قیادت میں تمام مغربی ممالک اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کرتے تھے لیکن 1973-74ء کی جنگ اور اس کے دوران میں تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے یورپی ممالک کو تیل کی ترسیل پر پابندی نے یورپی ممالک کو مشرق وسطیٰ اور عرب اسرائیل تنازع پر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ تیل کی برآمد پر اس پابندی (Oil Embargo) نے یورپی ممالک کو بتا دیا کہ اُن کی معیشت کا مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات پر کتنا انحصار ہے۔ اس لیے فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ اٹلی اور دیگر مغربی یورپی ممالک نے مشرق وسطیٰ میں متعدد معاملات میں نہ صرف امریکہ سے اختلاف کرنا شروع کر دیا‘ بلکہ اسرائیل کو بھی ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک مسئلہ فلسطین کے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام اور بیت المقدس سے عرب کلچر کو معدوم کرنے کی اسرائیلی کوشش ہے۔ یورپی ممالک کے دبائو کے تحت امریکہ کو بھی اس مسئلے پر اسرائیل سے اختلاف کرنا پڑا۔ مثلاً اسرائیل نے غیر قانونی طور پر بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ قرار دے کر اِسے اپنا دارالخلافہ بنا لیا ہے، لیکن امریکہ نے ابھی تک اسرائیل کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بھی ابھی تک تل ابیب سے بیت المقدس منتقل نہیں کیا گیا۔
تاہم امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ صدارت کا حلف لینے کے بعد امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کر دیں گے۔ ٹرمپ کا یہ اعلان نئے امریکی صدر کی اسرائیل نواز پالیسی کا مظہر ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں ٹرمپ نے دو سال قبل طے پائے گئے امریکہ‘ ایران ایٹمی سمجھوتے کو بھی تبدیل کرنے کے ارادے کا اعلان کر رکھا ہے۔ امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ نے اِن دونوں مسائل پر ٹرمپ کے موقف کو خطرناک اور مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے خلاف اسرائیلی موقف کی حمایت کی ہے بلکہ اسے شہہ دی ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اُس کی حلف برداری تک انتظار کرے۔ اگر ٹرمپ نے اپنے اعلانات کے مطابق اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت پر مبنی پالیسی اختیار کی تو خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ جو پہلے ہی شام اور یمن کی خانہ جنگی کی وجہ سے عدم استحکام سے دوچار ہے فلسطین کا محاذ گرم ہونے سے اور بھی غیر محفوظ ہو جائے گا۔