3 جنوری کو اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نوازشریف نے مُلک کی خارجہ پالیسی میں حکومت کی ترجیحات کو واضح طور پر بیان کیا اور کہا کہ پاکستان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی کے اُصول پر مبنی نہ صرف پُر امن تعلقات کے قیام پر یقین رکھتا ہے بلکہ باہمی مفاد کی بنیاد پر مضبوط معاشی تعلقات کا بھی خواہاں ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کے اعلیٰ ترین نمائندہ حکام شریک تھے، جن میں نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی شامل تھے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جاری کشیدہ صورتِ حال کے پیش نظر اِس اجلاس اور اس میں وزیراعظم کے خطاب کی اہمیت واضح ہے۔ سول لیڈر شپ کے اعلی ترین نمائندوں مثلاً وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی کے ساتھ عسکری قیادت کے اعلیٰ ترین نمائندوں کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ وزیراعظم نئی عسکری قیادت کو ساتھ لے کر نہ صرف قومی بلکہ علاقائی سطح پر بھی امن اور ترقی کے حصول کی خاطر اپنے اُس ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا مصمّم ارادہ رکھتے ہیں، جس کا اظہار انہوں نے 2013ء کے انتخابات سے قبل اور فوراً بعد کیا تھا۔ اس ایجنڈے یا ویژن کے مطابق وزیراعظم نے اندرون ملک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے اور سیاسی مفاہمت کو پروان چڑھا کر ترقی کی رفتار کو تیز کرنا تھا تاکہ ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی ویژن کے مطابق کے پی کے میں پی ٹی آئی کی قیادت میں مخلوط حکومت کے قیام میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے سے احتراز کیا گیا۔ بلوچستان میں بلوچ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک کو وزیر اعلیٰ بنایا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ اچھے ورکنگ تعلقات قائم کیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک پارٹی نے جسے مرکز میں بھاری اکثریت حاصل ہو، صوبوں میں اپنی مرضی کی حکومت بنانے سے احتراز کیا۔ وزیراعظم نوازشریف کی اس پالیسی سے پاکستان میں وفاقی نظام کو یقیناً تقویت ملی۔
خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے شعبے میں بھی وزیر اعظم نوازشریف نے جرأت مندانہ اور دور رس نتائج کی حامل پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے انتخابات سے پہلے ہی مختلف بیانات میں اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائیں گے اور ان کے ساتھ تجارت، آمد و رفت، کھیلوں اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو فروغ دیں گے۔ بھارت میں مئی 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے وزیر اعظم کا اپنے بھارتی ہم منصب کی دعوت پر نئی دہلی تشریف لے جانا اس خواہش کا نتیجہ تھا۔ لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پاکستانی کوشش نریندر مودی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ بعد میں اور بھی واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نہ صرف بات چیت کا آغاز نہ ہو سکا بلکہ جنوری 2016ء میں پٹھان کوٹ کے فوجی اڈے پر حملے اور جولائی میں کشمیر میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری کی طرف کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں طالبان اور کابل حکومت کے درمیان جنگ ہے، جس کے بارے میں افغان حکومت پاکستان کو بھی مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ یہ دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا‘ پاک افغان تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان نے طالبان پر اپنے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں بات چیت کا پہلا دور جولائی 2015ء کو مری میں منعقد ہوا، جس میں کابل انتظامیہ اور طالبان کے وفود کے علاوہ پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں نے بھی مبصرین کی حیثیت سے شرکت کی۔ بات چیت کے اس سلسلے کا آغاز پاکستان‘ چین اور امریکہ کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ لیکن یہ کوششیں بھی بارآور نہ ہو سکیں۔ پہلے ملا عمر کی وفات کی خبر لیک ہونے اور پھر کابل میں دھماکوں اور حملوں کی وجہ سے افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ افغان حکومت کی طرف سے کابل میں دھماکوں اور حملوں کی بالواسطہ طور پر پاکستان پر ذمہ داری ڈالنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور بھی کشیدہ ہو گئے۔
اسی اثنا میں بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔ افغان صدر اشرف غنی کے بعض پاکستان مخالفانہ بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ اس سال کے وسط میں سرحد پر فریقین کے درمیان مختلف وجوہ کی بنا پر جھڑپوں نے دور کر دی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ حال ہی میں ماسکو میں پاکستان‘ چین اور روس کے درمیان افغانستان میں قیام امن کی راہ نکالنے کے لیے جو مذاکرات ہوئے تھے‘ افغانستان نے اُن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا ہے کہ روس‘ ایران‘ افغان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے کی کوششوں کو ختم کر دے۔ پاکستان‘ بھارت اور افغانستان کے درمیان دوستانہ اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات نہ صرف ان تینوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن‘ استحکام اور ترقی کے لیے بھی ضروری ہیں۔ حقیقت کا ادراک ان تینوں ممالک کی سیاسی قیادت کے مقابلے میں ان کے عوام کو زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا انعقاد ہوا، سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی بہت بھاری اکثریت نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسی طرح پاک افغان سرحد سے مختلف مسائل، خواہ یہ لوگوں کا بغیر چیکنگ آنا جانا ہو یا دہشت گردی، سرحد پار فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سخت کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے سرحد کا بار بار بند ہونا نہ صرف کاروباری لوگوں اور کام کے لیے جانے والے افراد کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے‘ بلکہ تعلیم اور علاج معالجے کے لیے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے لوگ بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ سرحد کی بار بار بندش پر دونوں ملکوں سے تعلقات رکھنے والے تاجروں نے احتجاج کیا جس میں افغانستان میں پھل کاشت کرنے والے کسان بھی شامل ہو گئے۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ جب اُن کی محنت سے پیدا ہونے والے پھل برآمد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو عین اُس وقت پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دیتا ہے اور اس طرح انہیں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
چنانچہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا‘ پاکستان کے لیے آسان مسئلہ نہیں، اس کے راستے میں بہت مشکل رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ ایک طرف کشمیر کا مسئلہ ہے جس پر اپنے اُصولی موقف سے پاکستان کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی پشت پناہی کا الزام ہے جو گزشتہ تین دہائیوں کی غلط اور مہم جویانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات ضروری ہیں۔ اس مقصد کے لیے اگر خلوص دل سے کوشش کی جائے اور منزل مقصود کی طرف قدم بقدم سفر جاری رکھا جائے تو کشمیر جیسا دیرینہ اور ڈیورنڈ لائن جیسا پیچیدہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے بیان کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت پاکستان اس سمت کوئی مثبت اور ٹھوس قدم بھی اٹھائے گی۔ اگر وزیراعظم اپنی اعلان کردہ ویژن کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی جرأت مندانہ اقدام کرتے ہیں تو قوم کی بھاری اکثریت نے جس طرح 2013ء کے انتخابات میں انہیں کامیابی دلا کر اس ایجنڈے کو انڈورس (Endorse) کیا تھا‘ اب بھی اُن کا ساتھ دے گی اور پاک بھارت تعلقات میں بریک تھرو کا خیرمقدم کرے گی۔ وزیر اعظم کے اس اقدام سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ ہمارا کشمیر پر موقف مضبوط ہوگا کیونکہ بین الاقوامی برادری کی تمام تر ہمدردیاں پاکستان اور کشمیری عوام کو حاصل ہوں گی۔ پاکستان کا بحیثیت ایک پُر امن اور صُلح جُو ملک کا امیج کا نمایاں ہونا بہت ضرور ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسائل اور مشکلات سے قطع نظر باہمی اعتماد پر مبنی دوستانہ تعلقات قائم کریں۔