چند دن پیشتر لاہور میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی جانے والی صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر صوبہ پنجاب میں عمل درآمد کا جائزہ لینا اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مفید‘ ضروری اقدامات تجویز کرنا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے کی اور اس میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کے علاوہ لاہور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صادق علی، پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عمر فاروق برکی، لاہور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل سردار طارق امان، پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد سعید اور آئی جی پولیس بھی شریک تھے۔ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسند عناصر کے مکمل قلع قمع کیلئے ایک جامع پروگرام یعنی نیشنل ایکشن پلان کو شروع ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے‘ خاص طور پر کراچی‘ جہاں قاتلوں، بھتہ خوروں، اغوا کاروں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کا راج تھا، اب نسبتاً بہتر اور پُرامن زندگی پیش کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی جانے والی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردی کا خطرہ کم نہیں ہوا بلکہ کوئٹہ، پشاور اور قبائلی علاقوں میں حال ہی میں ہونے والے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر فورسز کی کارروائیوں کے پیش نظر، دہشت گرد وقتی طور پر تو زیرِ زمین چلے گئے ہیں، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، بلکہ مبصرین کے مطابق دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں میں اب بھی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہیں اپنی مذموم کارروائیوں کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ خاص طور پر کوئٹہ میں گزشتہ اگست میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ‘ جس میں 72 کے قریب افراد شہید ہوئے تھے اور جن میں اکثریت وکلا کی تھی‘ کی تفتیش کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کے بعد انسداد دہشت گردی کے میدان میں حکومت کی ناکامیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جن شعبوں میں حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کی گئی، ان میں دہشت گرد تنظیموں کو حاصل ہونے والی مالی امداد، فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے لٹریچر کی طباعت، اشاعت اور وسیع پیمانے پر تقسیم‘ دہشت گردوں کا بین الصوبائی نیٹ ورک‘ جس کے تحت دہشت گرد بڑی آسانی سے اور بلا روک ٹوک ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جا کر واردات کرتے ہیں اور پھر واردات کے بعد کسی اور علاقے میں جا کر پناہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح قانون کی گرفت سے بچ جاتے تھے، شامل ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر نہ صرف مرکزی بلکہ صوبائی سطح پر بھی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ چونکہ مرکزی حکومت کا موقف یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی بنیادی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے 5 جنوری کا اپیکس کمیٹی کا اجلاس‘ اور اس اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی اہمیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ دو اور پہلو ایسے ہیں جن کی وجہ سے پنجاب اپیکس کمیٹی کا اجلاس اور اس کے فیصلے ان تمام حلقوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں‘ جنہیں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر گہری تشویش ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ پنجاب آبادی اور وسائل کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس نسبت سے اسے دہشت گردی کے خلاف ملک گیر جنگ میں وسیع اور موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک صوبہ پنجاب کے اندر دہشت گردی کا سوال ہے‘ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس پر قابو پانے میں صوبائی حکومت نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پنجاب میں پولیس کی صلاحیت میں اضافہ کرکے دہشت گردوں کے خلاف متعدد کامیاب آپریشنز کیے گئے۔ اسی وجہ سے صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن دہشت گردی نہ تو محض امن و امان کا مسئلہ ہے اور نہ یہ صرف ایک صوبے تک محدود ہے بلکہ یہ ایک سیاسی اور قومی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے قومی سطح پر اور سیاسی بنیادوں پر ایک ملک گیر اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد میں پنجاب کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کا فقدان ہے، بلکہ بین الصوبائی تعاون کا بھی کوئی وجود نہیں۔ پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں‘ خصوصاً بلوچستان میں‘ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے جو واقعات ہوئے ہیں اور ان کی ذمہ داری جن تنظیموں نے قبول کی ہے، ان کے تانے بانے ان کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں سے ملتے ہیں جن کی جڑیںپنجاب میں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کالعدم ہونے کے باوجود یہ تنظیمیں پنجاب میں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جلسے کرتی ہیں اور جلوس نکالتی ہیں، لیکن صوبائی حکومت ان کے سامنے بالکل بے بس ہے، بلکہ بعض حلقوں کے مطابق پنجاب میں برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے کچھ رہنمائوں کے ان تنظیموں کے سربراہان سے ذاتی تعلقات ہیں۔ اگر ایک کالعدم تنظیم پر کسی صوبے میں جلسہ کرنے یا جلوس نکالنے بلکہ اس کے رہنمائوں کے داخلے پر بھی پابندی ہے، لیکن اس کے ارکان پنجاب میں وہ نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں، بلکہ اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عملدرآمد میں بالکل آزاد ہیں‘ تو اس سے نہ صرف انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا، بلکہ صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی اور ان کے نتیجے میں وفاق پاکستان کمزور ہو گا۔ غالباً انہی خدشات کے پیش نظر پنجاب اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں جہاں صوبے میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کیلئے پنجاب حکومت کے اقدامات اور قانون نافذ کرنے والی قوتوں کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا‘ وہاں اس خطرے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا مصمم ارادہ ظاہر کیا گیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اصلی منبع یعنی فرقہ واریت کا بھی قلع قمع کیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والے لٹریچر کی طباعت اور اشاعت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا‘ اور جو عناصر اس گھنائونے جرم میں ملوث پائے گئے، انہیں سخت سزا دی جائے گی۔ اسی طرح لائوڈ سپیکرز کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی
سخت اقدامات کا فیصلہ کیا‘ اور کہا گیا کہ مساجد اور دیگر مقامات سے اشتعال انگیز تقریروں کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن سب سے اہم اقدام صوبہ پنجاب میں مختلف راستوں سے آنے اور جانے والے افراد پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ دہشت گرد صوبہ پنجاب کو پاکستان کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے ایک اڈے اور پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کی طرف دوسرے صوبوں نے متعدد بار مرکزی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے، دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پنجاب کی حکومت پہلے تو ایک عرصہ تک صوبہ میں ایسے عناصر اور ان کے اڈوںکی موجودگی سے انکار کرتی چلی آ رہی تھی، مگر ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کے ایسے واقعات‘ جن کی ذمہ داری ایسی تنظیموں نے قبول کی ، جن کی جڑیں اور مرکز پنجاب میں ہیں، کے بعد پنجاب حکومت کو بھی ہوش آ گیا ہے۔ اس کا ثبوت اپیکس کمیٹی کی جانب سے دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کو حاصل ہونے والی مالی امداد کے ذرائع پر نظر رکھنے اور انہیں بند کرنے کا فیصلہ ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس پر مکمل طور پر قابو پانے کیلئے طویل المیعاد بنیادوں پر ایک سوچی سمجھی اور قومی اتفاق رائے پر مبنی پالیسی کی ضرورت ہے۔ دو سال قبل تشکیل پانے والا نیشنل ایکشن پلان 20 نکات پر مشتمل ایک پروگرام کا نام ہے‘ لیکن اصل کام اس پر عملدرآمد کا ہے۔ حکومت کے اپنے بیانات کے مطابق اس کے کئی نکات پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر یہ صورت حال مزید کچھ عرصہ اور جاری رہتی ہے تو پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔