"DRA" (space) message & send to 7575

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے چار برس کیسے گزریں گے؟

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے چار سال کیلئے حلف اُٹھا لیا ہے۔ دُنیا اور سب سے زیادہ خود امریکی عوام محو حیرت ہیں کہ اِن کا دور صدارت کیسے گزرے گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد جو تقریر کی، اُس نے امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں غیر یقینی‘ مایوسی بلکہ خوف کی لہر دوڑ دی ہے۔ جہاں تک امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری اور اس موقعہ پر کی گئی تقریر کے خلاف ردعمل کا تعلق ہے‘ پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان مظاہروں میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں 21 جنوری کو عورتوں کے جلوس میں ہزاروں شرکا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں عورتوں نے احتجاجی ریلیاں اور جلوس نکالے ہیں جن کا مقصد نئے امریکی صدر پر واضح کرنا ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اپنی زبان احتیاط سے استعمال کریں اور اُن کی عزت کرنا سیکھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عورتوں کے بارے میں بڑے نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے جن کی وجہ سے امریکی خواتین میں اُن کے بارے میں بڑا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ واشنگٹن میں نکالے گئے خواتین کے ایک بہت بڑے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے مشہور امریکی پاپ سنگر میڈونا نے کہا ہے کہ ان کا جی چاہتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد ان کی رہائش گاہ وائٹ ہائوس کو بم سے اڑا دوں۔ عوامی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے اور ان کی تقریر کے خلاف ردعمل کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی دنیا بھر میں تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے میں سنجیدگی آ جائے گی اور وہ ان انتہا پسندانہ اور دھمکی آمیز نعروں سے گریز کریں گے جو ان کی انتخابی مہم کا طرہ امتیاز تھے۔ لیکن توقع کے بالکل برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی 
تقریر میں نہ صرف وہی باتیں دہرائیں بلکہ بعض حالات میں ان کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ مثلاً ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف امریکی سرحدوں کے اندر کسی کو گھسنے نہیں دیں گے بلکہ ہمسایہ ممالک سے امریکہ آنے والی تجارتی اشیاء پر ٹیکس بھی عائد کر دیں گے۔ ٹرمپ کے اس بیان پر کینیڈا اور میکسیکو میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ دونوں نہ صرف امریکہ کے ہمسایہ ممالک ہیں بلکہ نارتھ امریکہ فری ٹریڈ ایریا (NAFTA) کے تحت امریکہ کے نہایت اہم تجارتی پارٹنر بھی ہیں۔ کینیڈا‘ چین کے بعد امریکہ کا دنیا میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اس کی 70 فیصد سے زائد برآمدات امریکہ کو بھیجی جاتی ہیں۔ ٹرمپ کے بیان سے کینیڈا میں سراسیمگی پھیلی اور وزیراعظم ترودو کو کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلانا پڑا۔ اسی طرح میکسیکو میں بھی ٹرمپ کے اس بیان نے گھبراہٹ پھیلا دی ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ ملنے والی سرحد پر دیوار تعمیر کرے گا اور اس پر آنے والی لاگت میکسیکو سے وصول کرے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے دیگر ممالک سمیت میکسیکو سے بھی درآمدات پر ٹیکس لگانے کی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کے ان بیانات سے نیفٹا، جسے اب تک دنیا کے ایک کامیاب فری ٹریڈ ایریا کی حیثیت حاصل رہی ہے‘ کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔
صرف تجارت ہی نہیں دفاع اور سلامتی کے شعبے میں بھی ٹرمپ کے بیانات اور ارادوں نے یورپ اور مشرق بعید میں امریکی اتحادیوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے معاہدہ شمالی اوقیانوس NATO کو ایک فرسودہ دفاعی معاہدہ قرار دیا اور کہا ہے کہ امریکہ اب تک دوسرے ممالک کے دفاعی اخراجات ادا کر کے اپنے دفاع کے بارے میں غفلت کا مرتکب چلا آتا رہا ہے۔ ٹرمپ کو غالباً اس تاریخی اور جیوپولیٹکل حقیقت کا علم نہیں کہ یورپ اور شمالی بحرِاوقیانوس کا دفاع امریکی دفاع سے منسلک ہے، لیکن ٹرمپ اس کے باوجود یورپ کے دفاع کی ذمہ داری سے امریکہ کو فارغ کرنا چاہتا ہے، اسی طرح ٹرمپ نے جنوبی کوریا اور جاپان کے لیے امریکی دفاعی امداد کی مخالفت کی ہے اور اسی کے حق میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ ان ملکوں کے دفاعی اخراجات امریکی معیشت پر بڑا بوجھ ہیں حالانکہ بحرالکاہل جیسے اہم خطے میں واقع یہ دونوں ممالک اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک ٹرمپ کی تقریر سے نہ صرف مایوس ہوئے ہیں بلکہ فکرمند بھی ہیں۔ ان کے مطابق عالمی سطح پر امریکی کردار کے بارے میں اگر ٹرمپ نے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیا تو دنیا کا معاشی اور سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی بہت سی پالیسیوں اور اقدامات سے اختلافات کے باوجود عالمی امن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی شرکت اور اس کا تعاون ضروری ہے۔ اس لیے کہ امریکہ اب بھی معاشی اور دفاعی لحاظ سے تمام دنیا میں سب سے طاقتور ملک ہے اور اس کے معمولی اقدام سے بھی عالمی معیشت اور سلامتی کے میدان میں بھونچال آ جاتا ہے۔ خاص طور پر معیشت کے شعبے میں کیونکہ دنیا کے ہر ملک کے لیے امریکہ اب بھی برآمدی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سب سے بڑی اور سب سے زیادہ پرکشش مارکیٹ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ان دونوں شعبوں میں فی الحال امریکہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اسی وجہ سے تو کہا جاتا ہے کہ اگر امریکہ کو چھینک آ جائے تو باقی ساری دنیا کو زکام ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی معیشت عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کی حیثیت رکھتی ہے۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اب اس انجن کو صرف امریکی معیشت کی گاڑی کھینچنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اس یکطرفہ اقدام سے افراتفری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں اب کوئی بھی ملک خواہ وہ امریکہ جیسی سپر طاقت ہی کیوں نہ ہو اکیلا معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ خود امریکہ میں نئے صدر کی مخالفت میں احتجاجی مظاہروں اور ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی میڈیا میں محاذ آرائی کا جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دور ہنگامہ خیز ہو گا۔ نئے صدر کے خلاف امریکہ میں صرف عورتیں ہی سڑکوں پر نہیں آئیں بلکہ تارکین وطن، سیاہ فام باشندے اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی سخت ہراساں ہیں اور وہ اپنے احتجاج کے ذریعے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں، جہاں پر نسل، مذہب اور رنگ کے لوگ صدیوں سے مل جل کر پرامن زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں ان کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کی پہلی تقریر پر جن دانشوروں اور ماہرین نے تبصرہ کیا ہے ان کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز جارحانہ تھا مگر تقریر میں ان کا رویہ وحشیانہ تھا۔ انہوں نے اپنے سے پہلے ادوار کے امریکہ کو میدان کارزار (Carnage) قرار دیا جن کے دوران فیکٹریوں پر فیکٹریاں بند پڑی تھیں اور ان کی مشینری کو زنگ تباہ کر رہا تھا۔ بیروزگاری عام تھی اور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا‘ امریکہ کمزور ہو رہا تھا اور اس کے دشمن مضبوط ہو رہے تھے۔ سرحدوں کے پار بلا روک ٹوک لوگوں کی آمدورفت جاری تھی اور امریکی بازاروں میں غیر ملکی اشیاء کی بھرمار تھی۔ مڈل کلاس کے لوگ معاشی بدحالی کا شکار تھے کیونکہ ان کی جگہ غیر ملکی تارکین وطن ملازمتوں پر قابض ہو رہے تھے لیکن غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سے پہلے کے ادوار یعنی صدر بارک اوباما کے عہدِ صدارت میں امریکی معیشت اور معاشرے کی جو بھیانک تصویر پیش کی ہے اس میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہے۔ ٹرمپ نے اوباما کے مثبت اقدامات اور کامیابیوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا ہے۔ جب اوباما نے عہد صدارت سنبھالا تھا تو امریکہ ایک تباہ کن مالی بحران کا شکار تھا۔ کار سازی کی صنعت ٹھپ ہو چکی تھی‘ بیروزگاری کی سطح خطرناک حد تک اوپر جا چکی تھی۔ امریکہ عراق میں بُری طرح اُلجھا ہوا تھا لیکن بارک اوباما نے امریکہ کو معاشی بحران سے نکال کر روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کئے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کر کے مشرق وسطیٰ میں ایک خوفناک تصادم کا خطرہ دور کیا اور کیوبا کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لا کر ایک نئے دور کا آغاز کیا لیکن ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر ازسر نو بات چیت کریں گے کیوبا کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے نئی شرائط پیش کریں گے اور چین سے مطالبہ کریں گے کہ تجارت اور کرنسی کے شعبوں میں امریکی مفادات کو پیش نظر رکھے۔
صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران جب ڈونلڈ ٹرمپ اس قسم کی باتیں کہہ رہا تھا تو بہت کم لوگوں کو اس کی کامیابی کا یقین تھا لیکن تاریخ کے ایک امریکی پروفیسر نے اس کی جیت کی پیش گوئی کی تھی مگر اسی پروفیسر نے ساتھ ہی یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ صدر ٹرمپ اپنی ہی پارٹی یعنی ری پبلکن پارٹی کے ہاتھوں مواخذے (Impeachment) کا شکار ہو جائے گا۔ ٹرمپ کے خلاف جس شدت سے مظاہرے ہو رہے ہیں اور وہ غلطی پر غلطی کئے جا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی پروفیسر کی دوسری پیش گوئی پورا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں